رمضان المبارک کے بعد شادیوں کی دعوتیں
رمضان المبارک کے بعد شادیوں کا سلسلہ بہت وسیع تر رہا اور جنات کا بڑا اہتمام ہوتا ہے بعض جنات ایسے ہوتے ہیں شادیوں پر بہت زیادہ اخراجات ہوتے ہیں لیکن ایسے کم ہوتے ہیں‘ اکثریت ان جنات کی ہوتی ہے جو شادیوں میں اپنے اخراجات کم سے کم کرتے ہیں اور بہت کفایت شعاری کرتے ہیں حتیٰ کہ جنات مسلمان ہوں یا غیرمسلم شادیوں میں زیادہ اخراجات نہیں کرتے۔ یہ شروع سے ان کی ریت روایت چلی آرہی ہے۔ ابھی مجھے شادیوں کی دعوت تھی تو میں نے کوشش کی کہ جتنا میں جاسکتا ہوں چلا جاؤں‘ ظاہر ہے کہ ہر شادی میں جا نہیں سکتا لیکن جتنی شادیوں میں گیا ہوں میں نے انوکھے رنگ دیکھے‘ انوکھے کمال دیکھے۔
ان کی شادیاں اکثر ٹوٹ جاتی ہیں!
میں ایک دفعہ ایک جن کی شادی میں گیا تو ان سے پوچھا کہ آپ بہت زیادہ اخراجات کا اہتمام کیوں نہیں کرتے۔ یہ ایک جن تھے جو لکڑی کاکام کرتے تھے اور ساتھ تعمیر کا کام بھی کرتے تھے تو وہ مجھ سے کہنے لگے کہ دراصل ہمارے ہاں ایک بات بہت زیادہ مشہور ہے اور یہ حقیقت بھی ہے کہ جو خرچہ شادی میں غیر شرعی ہوگا اور ایسا ہوگا کہ جس میں میوزک ہوگا‘ گانا بجانا ہوگا‘ ناچنا ہوگا اور پھول پر‘ جھنڈیوں پر ‘ یا ایسے اخراجات جو ضرورت نہیں لیکن انسان لوگوں کو دکھانے کے لیے یا اپنی چاہت اور خواہش نفس کے لیے یا زمانے کے رواج کو سامنے رکھتے ہوئے کرے گا تو ان کی شادیاں اکثر ٹوٹ جاتی ہیں اور اگر ٹوٹتی نہیں تو مسلسل مسائل مشکلات‘ پریشانیاں اور تکالیف میں رہتے ہیں اور ان کی شادیوں میں اکثر یا تو طلاقیں ہوتی ہیں یا پھر انہیں زندگی کی کوئی نہ مشکل پریشانی لاحق رہتی ہے ان کی نسلوں میں اکثر بچے اپاہج‘ لولے‘ لنگڑے ہوتے ہیں یا اولاد نافرمان ہوتی ہے اور اولاد کے مسائل ہوتےہیں یا پھر بیٹے نہیں ہوتے۔ بے اولادی بہت زیادہ ہوتی ہے الغرض کوئی نہ کوئی مسئلہ اور کوئی نہ کوئی مشکل ان حضرات کو لاحق رہتی ہے ۔
یہ جنات شادیوں میں بہت احتیاط کرتے ہیں
جو ہمیشہ اپنی مرضی سے شادیاں کرتے ہیں اور اپنی مرضی کی شادیوں میں اپنے مزاج سے چلتے ہیں۔یہ گفتگو میں نے ان کی سنی مجھے احساس ہوا کہ وہ بہت سمجھدار ہیں اور بہت زیادہ ان کے دل میں ایک احساس ہے کہ بڑوں کی ریت روایت کا خیال رکھنا ہے۔ مجھے ان کی ایک بات پر حیرت ہوئی کہ ان کے اندر بڑوں کی ماننے کا مزاج ہے کہ ان کے بڑے جس ریت روایت ‘ جس انداز سے چھوڑ کر گئے تھے کہ شادیوں میں فضول خرچی نہیں کرنی اور شادیوں میں موسیقی‘ میوزک‘ گانا بجانا اور ایسا شادیوں کا انداز جس میں عورت اور مرد جمع ہوں‘ یہ چیزیں ان کے بڑوں نے چونکہ منع کی ہیں اس لیے وہ بھی اس سے منع ہیں اور اس سے حد درجہ منع ہیں اور بہت احتیاط کرتے ہیں۔
بہت کم جنات ہیں جو شادی پر ایسا کرتے ہیں
ہمارے ہاں تھوڑی شادیاں ایسی ہوتی ہیں جن میں سادگی ہو‘ اکثریت شادیاں ایسی ہوتی ہیں جن میں بناوٹ تضوع ‘ دکھاوا‘ فنکشن ہوتے ہیں‘ ایک فنکشن کے بعد دوسرا‘ دوسرے کے بعد تیسری تقریب ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سے مال ضائع ہوتا ہے اور اکثر قرضہ لے کر یا پھر شادی کے بعد مقروض ہوجاتے ہیں لیکن زمانہ سازی اور لوگوں کو دکھاوا بہت زیادہ ہوتا ہے۔ جنات میں بہت کم ہیں جو ایسا کرتے ہیں اور ہمارے ہاں بہت زیادہ ایسا کرتے ہیں اورانسان بہت کم ہیں جو سادگی اختیار کرتے ہیں اور سادگی کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو بہت ہی زیادہ اکثریت ان لوگوں کی ہے جن کے مزاج میں تضوع ہے‘ بناوٹ ہے اور جو زمانے کو دکھانے کے لیے بہت زیادہ شادیوں پر دکھاوا کرتے ہیں۔ میں نے یہ بات سوچی تو فوراً مجھے احساس ہوا کہ جو کچھ یہ جن کہہ رہے بالکل سچ اور حقیقت بتارہے۔
جناتی جیل کے داروغہ کی دعوت شادی
ابھی پچھلے دنوں مجھے ٹھٹھہ جیل کے داروغہ کی طرف سے دعوت موصول ہوئی کہ میرے بیٹے کی شادی ہے‘ آپ اس میں ضرور تشریف لائیں‘ میں نے ان کی دعوت قبول کی‘ اس کی اصل بنیادی وجہ یہ تھی کہ بہت عرصہ ہوا کہ میں ٹھٹھہ جیل نہیں جاسکا تو وہاں کے حالات آپ کو میں نے گزشتہ اقساط میں بتائے تھے لیکن مزید حالات جاننا چاہ رہا تھا کہ اس سے بھی آگاہی ہو‘ اس لیے میں نے ٹھٹھہ جیل کی دعوت فوراً قبول کرلی۔ طے یہ ہوا کہ شب جمعہ کو رات کو ہی آپ کی اس جناتی سواری پر چلا جاؤں گا اور رات وہاں آرام کرلوں گا اور جمعہ کا پورا دن میں ان کے ساتھ رہوں گا اور میرے دل میں یہ بات فوراً آئی کہ وہاں کچھ قیدیوں سے ملاقات بھی کرلوں گا اور قیدیوں سے حالات بھی پوچھوں گا کہ وہ کس گناہ میں‘ کس جرم کی پاداش میں قید ہوئے؟
اور میں نے جناتی شادی کی دعوت قبول کرلی
اس سے ایسا ہوگا کہ میں اپنے قارئین کو یہ بھی بتاسکوں گا کہ کہاں کہاں جنات ہمارا نقصان کرتے ہیں‘ہمیں کہاں ان کے نقصان سے بچنے کےلیے احتیاط کرنی چاہیے۔ بس یہ باتیں تھیں جن کو سامنے رکھتے ہوئے میں نے ان کی دعوت کو فوراً قبول کرلیا حالانکہ دعوت دینے والے اور بھی بہت تھے لیکن میں نے صرف ان کی دعوت کو قبول کیا۔ شب جمعہ میں رات ہی میں ٹھٹھہ جیل میں چلا گیا۔ایک سواری آئی جو کہ بہت بڑی چیل کی شکل کی تھی کیونکہ گدھ اور چیل کی شکل تقریباً برابر ہوتی ہے اور وہ آکر میرے گھر کی چھت پر بیٹھی‘ میں جب بھی جنات کی حاضری میں جاتا ہوں‘ ملاقات پر جاتا ہوں ان کی دعوت یا ان کے ختم قرآن میں‘ میں خوشبو بہت زیادہ استعمال کرتا ہوں کیونکہ خوشبو جہاں فرشتوں کی غذا ہے‘ وہاں نیک صالح جنات کی بھی غذا ہے اور جنات اس غذا کو بہت زیادہ پسند کرتے ہیں‘ میں نے خوشبو لگائی‘ خوشبو لگانے کے بعد میں جنات کی سواری میں بیٹھا۔
حفاظت پر معمور جنات
ان کے دو خادم موجود تھے سواری کی اگلی نشست پر میں بیٹھا اور پیچھے ان کے دو خادم تھے جو حفاظت کے لیے ہوتےہیں کیونکہ جب سواری بہت اونچی فضاؤں میں اڑتی ہے تو دائیں بائیں چونکہ ہواؤں میں جنات بہت زیادہ ہوتےہیں‘ وہ حفاظت کے لیے طاقتور دیو‘ جنات ہوتے ہیں جو کہ مہمان کی حفاظت کرتے ہیں تاکہ کوئی دیو‘ جن‘ کوئی ایسی چیز نقصان نہ دے اور دائیں بائیں سے حفاظت رہے۔
حفاظت والے اعمال
میں خود بھی مسنون اعمال کرلیتا ہوں حفاظت والے اعمال کرلیتا ہوں سالہا سال سے یہ رابطہ ہے اور سالہا سال سے یہ سلسلہ ہے‘ آج تک سواری کے دوران کوئی کسی قسم کا نقصان اور حملہ نہیں ہوا‘ سواری کے دوران دائیں بائیں مناظر دیکھتا ہوں‘ جنات کی بہت زیادہ شرارتیں اور بعض اولیاء صلحاء جنات کی نیکیاں بھی‘سب کچھ دیکھنے کوملتی ہیں اور میں دیکھتا چلا جاتا ہوں۔ بس یوں سواری پر بیٹھا اور تھوڑی ہی دیر میں ہم ٹھٹھہ کے بیابان اور دور پرے تک پھیلے قبرستان میں چلے گئے اور وہاں ہم جاکر اترے ‘وہاں بہت بڑا مجمع تھا جو استقبال کیلئے آیا ہوا تھا اور داروغہ جیل خود آئے ہوئے تھے‘ مجھے لے گئے ساتھ ہی میدان میں مجمع تھا لیکن انہوں نے مجھے ایک کمرے میں آرام کیلئے بٹھایا۔ میں نے کچھ دیر آرام کیا۔
جناتی شادی کی انوکھی پروقار تقریب
صبح ناشتہ کے بعد وہاں کی تقریب کا اہتمام ہونا تھا‘ تقریب یہ تھی کہ بہت سے لوگ جمع تھے اور وہ سب سورۃ رحمن اور سورۃ یٰسین پڑھ رہے تھے۔ یاد رہے کہ جب بھی میں جنات کی شادی میں شامل ہوا وہ سورۃ رحمن اور سورۃ یٰسین بہت زیادہ پڑھتے ہیں۔ اس کا بھی میں نے ایک دفعہ ان سے پوچھا کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں ؟کہنے لگے کہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم ایسا اس لیے کرتے ہیں کہ یہ سورتیں ہمیشہ شریرجنات‘ شیاطین‘ جادو‘ اثرات‘ شرپسندی اور نظربد سے بہت زیادہ بچاتی ہیں اور یہ سورتیں بہت حفاظت کرتی ہیں۔ اس لیے ہم ان کی تلاوت کا بہت زیادہ اہتمام کرتے ہیں۔
کامیاب شادی اور صحت مندانہ طرز زندگی
بعض اوقات تمام گھر والے اور بعض اوقات جتنے بھی رشتہ دار شادی کے لیے آتے ہیں ان سب کوخدمت پر لگاتےہیں اور ہر جن اس خدمت کو سعادت سمجھتا ہے اور ہر جن یہ چاہتا ہے کہ میں یہ خدمت کروں‘ اس کی برکت یہ ہوتی ہے کہ ہمارے ہاں طلاقیں نہیں ہوتیں‘ جھگڑے بالکل نہیں ہوتے یا بہت کم ہوتے ہیں‘ زندگی میں سکون ‘چین ‘راحت ہوتی ہے اور جو لوگ ایسی شادیاں کرتے ہیں ان کی اولادیں فرمانبردار ہوتی ہیں‘صحت مند ہوتی ہیں اور ایسی شادیاں کرنے والوں کی اولادیں ہمیشہ باوقار زندگی گزارتی ہیں‘ کاروباری مسائل‘ مشکلات‘ الجھنیں‘ ناکامیاں راستے بند ہونا ان کے لیے ایسا معاملہ نہیں ہوتا حتیٰ کہ جس شادی میں سورۂ رحمن سورہ یٰسین کا بہت زیادہ اہتمام کیا جائے اور رسومات اور فضول خرچی نہ کی جائے تو ایسی شادیاں ہمیشہ کامیاب تو ہوتی ہی ہیں لیکن ایسی شادیوں کی وجہ سے نسلوں کو فقر ‘غربت‘ تنگدستی اور بے اولادی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
جنات کا مخصوص نغمہ اور ایجاب و قبول
اس شادی میں بھی سورۂ رحمن اور یٰسین بہت پڑھی گئی اور اس کے بعد پھر ان کا ایک مخصوص نغمہ ہوتا ہے وہ چند جنات مل کر پڑھتے ہیں‘ بہت انوکھی سُر ہوتی ہے اور ان کا آپس میں آواز کا ملاپ ہوتا ہے۔ دراصل اس نغمے میں نئے جوڑے کیلئے بڑی زبردست دعا ہوتی ہے۔ وہ ان کی اپنی جناتی زبان میں ہے‘ وہ نغمہ پڑھا گیا جو کہ اکثر شادیوں میں پڑھا جاتا ہے‘ وہ دعا یہ ہوتی ہے کہ تم خوش رہو‘ خوشحال رہو‘ آباد رہو‘ شاد رہو‘ تمہیں کوئی خزاں کی ہوا اور فضا نہ چھوئے‘ ہمیشہ بہاریں تمہیں چھوتی رہیں اور خوشیاں خوشحالیاں تمہیں چھوتی رہیں‘ زندگی میں ہمیشہ شاد و آباد رہے۔
پُر لطف مخصوص نغمہ
اس طرح کا ایک نغمہ ہوتا ہے ا ور اسے پڑھنے میںبہت دیر لگتی ہے اتنا لمبا نغمہ ہونے کے باوجود جنات کو نہ اکتاہٹ ہوتی ہے اور نہ ہی ان کی توجہ کسی اور طرف مائل ہوتی ہے کیونکہ اس نغمہ میں ساز نہیں ہوتا، گانا بجانا نہیں ہوتا بس کچھ لوگ اپنی سریلی آواز میں وہ پڑھتے ہیں اور اس سے بہت سے جنات ایسے بھی ہوتے ہیں جو آنسو بہارہے ہوتے ہیں بہت سے جنات واہ واہ اور سبحان اللہ کہہ رہے ہوتے ہیں اور بہت محو حیرت مجھ جیسے جو خاموشی سے سن رہے۔ جنات کی زبان ایک مخصوص زبان ہے جو ہماری ان زبانوں سے کوئی میل ملاپ نہیں رکھتی۔ مخصوص ان کا انداز ہے‘ مخصوص ان کا طرز ہے‘جو اپنی آواز میں بولتے ہیں اپنی آواز میں وہ کرتے ہیں‘ ان کی سریلی آواز جنات سننے کیلئے بے چین ہوتے ہیں‘ بے قرار ہوتے ہیں اور بعض جنات ان میں ایسے بھی ہوتےہیں جو صرف اور صرف جنات کی اس آواز سننے کے لیے آتے ہیں یعنی وہ صرف اس آواز کو آکر سنتے ہیں حالانکہ وہ بعض اوقات شادیوں میں مدعو نہیں ہوتے لیکن وہ دور بیٹھتے ہیں جب یہ نغمہ ہوتا ہے شادی کا اس کو دور بیٹھ کر سن کر بعد میں وہ چلے جاتے ہیں اور جنات کے ہاں ان کا آنا ناگواری کا ذریعہ نہیں ہوتا کیونکہ وہ ان کے کسی اور نظام میں دخل نہیں دیتے بس صرف نغمہ سننے آتے ہیں کیونکہ اس نغمے میں خلوص‘ درد‘ سوز ہوتا ہے پھرنغمہ کے بعد نکاح ایجاب و قبول ہوا اور اس کے بعد کھانا لگا۔
ٹھٹھہ کی خطرناک جناتی جیل کا دورہ
میں نے چونکہ صبح کا ناشتہ کیا ہوا تھا میں نے تھوڑا سا کھانا کھالیا میں نے داروغہ جیل سے خواہش ظاہر کی کہ میں چاہوں گا کہ میں جیل کے کچھ جنات قیدیوں سے ملوں تو انہوں نے خوشی کا اظہار کیا بلکہ یہاں تک کہنے لگے :کچھ پرانے قیدی ایسے بھی ہیں جو بعض اوقات آپ کو یاد کرتے ہیں‘ آپ ان سے ملے تھے۔آپ نے انہیں نیکی کی تلقین کی تھی اور آپ نے وہاں ٹھٹھہ کی جیل میں جنات کو کچھ نصیحتیں بھی کی تھیں کچھ واعظ بھی کیا تھا‘ بہت خوش ہیں اکثر یاد کرتے ہیں ‘ہم پیدل ہی چلے ساتھ ہی جیل ہے ۔
خاص دیوار
جیل کی بہت بڑی دیوار ہے لیکن وہ دیوار نہ اینٹوں کی ہے‘ نہ لوہے کی ہے‘ نہ پتھر کی ہے وہ ایک طاقتور حصار ہے جس کو کوئی طاقتور سے طاقتور دیو‘ جن‘ جادوگر کبھی نہیں توڑ سکتا۔ وہ ایک خاص دیوار ہے۔ اس کے دروازے ہیں حتیٰ کہ اس دروازے کے اندر پھر ایک اور دیوار ہے کہ کوئی شخص اس دروازے سے باہر نکل نہیں سکتا اور جنات چونکہ ایک سخت جان اور ناری مخلوق ہیں اس لیے ان کو سزائیں بھی بہت سخت ہوتی ہیں جو کہ میں گزشتہ اقساط میں آپ کو تفصیل سے بیان کرچکا ہوں۔ (گزشتہ اقساط کا مکمل احوال جاننے کیلئے ’’جنات کا پیدائشی دوست(جلد اول تا چہارم) کا مطالعہ کیجئے)
سب سے بڑے مجرم جن سے ملاقات کروائیے!
میں جیل میں گیا۔ میری چاہت تھی ایسے قیدی سے ملوں جس کا جرم سب سےبڑا ہو۔ میں نے داروغہ سے اس کا اظہار کیا تو مجھے ایک ایسی بیرک میں لے گئے جس کے اردگرد سخت کانٹے تھے اور اس کو کانٹوں کے حصار سے انہوں نے بند کیا ہوا تھا۔
میں ابھی قریب ہی پہنچا تھا کہ اندر سے مجھے سسکنے کی آوازیں آئیں تو میں نے ان سے پوچھا یہ کیا ہے اور کون جنات ہیں اور ان کا جرم کیا ہے اور یہ کانٹے کیوں ہیں؟ بس بے ساختگی میں میں بہت سے سوال کرگیا تو انہوں نے میرے سوالات کا جواب دیا۔
جناتی قانون کے مطابق ناچ گانا جرم ہے!
جواب : دراصل یہ ان جنات کی خطرناک بیرک ہے اور جس میں وہ مسلسل سزاؤں میں ہیں جنہوں نے عورتوں کو بے آبرو کیا یعنی انسانی عورتوں کو بے آبرو کیا اور انسانی شادیوں میں جاکر ان کے دل میں ایسے وساوس ڈالے کہ وہ شادیوں کے نام پر عیاشی‘ شراب اور طوائفوں کی محفلیں ‘گانا بجانا ‘عورتوں اور مردوں کا اکٹھا ہونا اور ناچنا ۔ ان کو گناہ کی طرف مائل کرنا۔ یہ ان کا جرم تھا۔ ہمارے جناتی قانون کے مطابق ایسا کرنا جرم ہے۔ بہت سارے بھاگ جاتے ہیں جو پکڑے جاتے ہیں وہ اس جیل کی خطرناک قید میں موجود ہیں۔
علامہ صاحب خطرناک جن قیدی کی بیرک میں
ہم اس لیے آپ کو یہاں لائے ہیں کہ آپ نے کہا تھا کہ مجھے کوئی خطرناک قیدی ملوائیں‘ ہم نے جیل کا دروازہ کھولا کانٹوں کی دیوار ہٹی‘ ہم اندر داخل ہوئے ایک خطرناک جن تھا جس کو زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا وہ نہ ہل سکتا تھا‘ نہ اٹھ سکتا تھا‘ نہ بیٹھ سکتا تھا اوریہ آواز اس کے کراہنے کی تھی‘ داروغہ جن کے حکم سے اس کو زنجیروں سے آزاد کیا کہ اس کے پاؤں جکڑے رہے اور آدھا جسم جکڑا رہا اور اوپر کا جسم اس کا کھول دیا وہ مؤدب ہوکر بیٹھ گیا۔
میرا جرم انسانوں کی شادیوں سے لطف اندوز ہونا
داروغہ جیل نے میرا تعارف کروایا اور تعارف کروا کر اس سے کہا کہ تم سے جو سوال کریں‘ اس کا سچ سچ جواب دو اور ویسے بھی ان کے پاس ہر قیدی کی پوری سرگزشت ہوتی ہے‘ تاریخ ہوتی ہے کہ قیدی نے کیا کیا تھا‘ اس کا جرم کیا تھا اور یہ اب تک کیاکیا کرتا رہا؟
میں نے اس سے پوچھا :کہ آپ کس جرم میں قید ہیں؟
تو کہنے لگا : میرا جرم یہ ہے کہ میں انسانوں کے شادیوں سے لطف اندوز ہوتا تھا‘ ناچنے والوں کیساتھ ناچتا‘ گانے والوں کے ساتھ گاتا۔ خاص طور پر جہاں عورتیں اور مرد اکٹھے ہوکر ناچتے گاتے یا عورتیں اور مرد اکٹھے ہوئے فلمیں یا تصاویر بنواتے میں ان کے دل میں مزید وساوس ڈالتا اور اس شوق کو مزید ابھارتا اور ان کو دل ہی دل میں ترتیبیں دیتا تھا ترغیبیں دیتا تھا کہ یہ بہت اچھا کام ہے‘ زمانہ بھی تو کررہا‘ تم بھی کرو‘ جو دل چاہے کرو‘سارا زمانہ کررہا کسی کا کچھ نقصان نہیں ہوا؟ تم بھی کرو۔
شیطانی وساوس لوگوں کے دلوں میں ڈالتا تھا
کچھ لوگ تمہیں منع کریں گے کہ ایسا نہ کرو‘ ایسا کرنے سے تمہارا نقصان ہوگا کسی کی نہیں سننی‘ بس اپنے کام پر لگنا ہےا ور اپنا کام کرنا ہے‘ تم بہت اچھے لگ رہے ہو‘ تمہیں لوگ بہت اچھا کہہ رہے‘ تمہاری واہ واہ ہورہی‘ مال نہیں ہےتوکوئی حرج نہیں‘ قرضہ لے لو یا زمین یا پلاٹ کا کوئی حصہ بیچ دو‘ یا کوئی چیز بیچ دو ۔مال ہے بھی تو اچھی بات ہے اگر یہاں خرچ نہیں ہوگا تو کہاں خرچ ہوگا؟ یہ باتیں ہیں جو ان کو سجھاتا تھا ان کےدلوں میں وساوس ڈالتا تھا اور میں اپنے شیطانی وساوس سے ان کو اور زیادہ اکساتاتھا۔
شادیاں‘ڈھولک‘ بدنظری اور آبروریزی کے واقعات
میں نے اس شریر جن سے سوال کیا کہ پھر اس کا انجام کیا ہوتا تھا؟ کہنے لگا اس کا انجام یہ ہوتا تھا کہ لوگ میری بات مانتے‘ شادیوں میں بہت زیادہ اخراجات‘ شادیوں کےبہت زیادہ خرچے وہ مسلسل کرتے ہیں اور حتیٰ کہ ان شادیوں کے لیے سود پر قرض لیتے ہیں یاپھر اتنا خرچہ کرتے ہیں کہ خود مقروض ہوجاتے ہیں سالہا سال یا ساری زندگی اس قرض کو اتارتے رہتے ہیں وہ قرض اترتے نہیں اترتا۔
نوجوانوں کو بدنظری میں مبتلاکر دیا
لیکن میں یہ بات ان کے احساسات میں نہیں دیتا ‘ان کے ہر کام کو کہتا ہوں جو وہ کررہے وہ بالکل صحیح کررہے ہیں‘ جو وہ چاہ رہے بالکل ٹھیک چاہ رہے‘ ان کو ہر چیز میں اچھا کرکے دکھاتا اور ان کے اور دوستوں کے دلوں میں ڈالتا کہ ان کی تعریفیں کریں اور ان کےناچ گانے‘ بجانے میں موویز بنانے میں‘ اخراجات کرنے میں‘ آتش بازی کرنے میں‘ مہندی‘ مایوں‘ تیل میں ان کے ساتھ شامل ہوں‘ ڈھولک کی آواز میں لڑکیوں کو جمع کرتا‘ ان کے دلوں میں ڈالتا‘ ان کو رات بھر گانے بجانے پر لگاتا‘ پھر بعض نوجوانوں کے دلوں میں ڈالتا کہ فلاں لڑکی خوبصورت ہے‘ اس کو بدنظری میں مبتلا کرتا۔ اسی شادی کے دوران میں نے بہت سے لوگوں انسان کی انسان سے آبرو ریزی کروائی ‘ اس میں‘ میں نے انہیں لطف دیا اور اس کا کچھ پچھتاوا تک نہ ہونے دیا۔ اتنے ان کےدل میں میں نے وساوس ا ور تسلی ڈالی۔ میرا کام صرف یہی تھا۔
عبرتناک انجام
میں نے اس جن سے پوچھا کہ تمہارا کیا خیال ہے کہ جب ایسی شادیاں ہوتی ہیں جس شادی پر گانا بجانا ہوتا ہے‘ بہت زیادہ رسم و رواج ہوتا ہے‘ سادگی نہیں ہوتی تو ایسی شادیوں کا انجام کیا ہوتا ہے‘ میری بات سن کر وہ خاموش رہا ایسے جیسے کہ اس کی جرأت نہیں ہورہی کہ مجھے کیا جواب دے اور میرے ساتھ کیا باتیں کرے۔ میں نے مزید اس سےسوال کیا کہ مجھے ایسی شادیوں کا انجام بتاؤ‘ جو شادیاں اس مزاج اور طرز سے کی جائیں اور جن شادیوں کو اس انداز سے کیا جائے۔ ان کا آخر انجام کیا ہوتا ہے؟ اس نے سر اٹھایا اور وہ آنسو بہا رہا تھا پھر اس نے مجھے کچھ واقعات سنائے اور یہ واقعات اتنےغم ناک اور پریشان کن تھے کہ میں خود پریشان ہوا۔
شادی‘ ناچ گانا میں شریر جن کا جانا اور تباہی
کہنے لگا:میں ایک نیم کے درخت پر رہتا تھا میرےساتھ انسانوں کی بستیاں اور علاقے تھے۔ نیم کے درخت سے ایک دن میں نے دیکھا کہ قریب ہی ایک گھر میں شادی ہورہی‘ شادی کی ابتدا ہے‘ عورتیں اور لڑکیاں بیٹھ کر ڈھولک پر کچھ گارہی ہیں۔ میں اس ڈھولک کی آواز میں ساتھ شامل ہوا اور اس کو سریلا بنایا ان کے دل میں ڈالا کہ ایک ڈھولک سے کچھ نہیں ہوتا۔ انہوں نے کرائے پر ایک اور ڈھولک منگوائی اور ساز کو میں نے بہت زیادہ بڑھایا پھر ایک اور بات ڈالی کہ صرف ڈھولک بجانے سے کچھ نہ ہوگا ناچنا بھی ہوگا ‘ان میں سے ایک نے ناچنا شروع کیا ‘سب بہت خوش ہوئے‘ میں نے ڈھولک کی آواز کو اور تیز سے تیز کروایا وہ تیز سے تیز ترہوتی گئی ان کا جسم تھرکنے لگا ‘رات بیت گئی‘ اس میں مرد بھی جمع ہوگئے‘ عورتیں بھی جمع ہوگئیں۔
تین زنا اور ایک جان چلی گئی
اس رات میں نے تین زنا کروائے اورمجھے بہت خوشی ہوئی۔ اس ایک زنا میں ناجائز حمل ٹھہرا جو انہوں نے چھپایا‘ تیسرے ماہ اس حمل کو ختم کراتے ہوئے اس لڑکی کی جان چلی گئی۔ وہی گھر جو چند ماہ پہلے خوشیوں کا گہوارہ تھا اور آپس میں خوش ہورہے تھے‘ ناچ رہے تھے‘ گا رہے تھے‘ کھل رہے تھے‘ کھلکھلا رہے تھے ‘کھاپی رہے تھے‘ اس گھر میں اسی لڑکی کی میت پڑی ہے جس کی شادی ابھی نہیں ہوئی اور وہ اس شادی میں شامل تھی اور وہ شادی اس کےسگے بھائی کی تھی۔
ہم شریر جنات دکھ دےکر خوش ہوتے ہیں
مجھے بہت خوشی ہوئی کہ میں نے انہیں گناہوں میں مبتلا کیا کیونکہ ہم شیاطین اور شریر جنات ہمیشہ لوگوں کو گناہ میں مبتلا کرکے خوش ہوتے ہیں بیماریوں میں مبتلا کر کے ہمیں راحت ملتی ہے‘تکالیف میں دیکھ کر ہمیں تسلی ہوتی ہے۔کوئی خوش ہو خوشحال ہو‘ نیکی کی طرف ایمانداری‘ تقویٰ کی طرف چل رہا ہو اور اس کے پاس وسائل ہوں تو ہمیں راحت نہیں ملتی‘ ہمیں خوشی نہیں ملتی بلکہ ہم پریشان ہوتے ہیں کہ اس کے پاس وسائل کیوں ہیں؟ اس کے پاس کھانا کیوں ہے؟ اس کے پاس چیزیں کیوں ہے؟ ہمیں کھانے پینے کی چیزوں اور انسانوں کی نعمتوں سے چڑ ہوتی ہے اور ہمیں تکلیف ہوتی ہے کہ ان کا کھانا کیوں اچھا ہے؟ان کا پہننا کیوں اچھا ہے؟ اس سے زیادہ ہمیں تکلیف اس بات پر ہوتی ہے کہ یہ نیکی طرف کیوں ہیں؟ اس کی شادی میں سادگی کیوں ہے؟ اس کی شادی میں قرآن‘ درود پاک‘ ذکر تسبیح کیوں کیا گیا؟ اور کیوں اس کی شادی میں ایسا ہوا؟
شادیوں پر خواتین کو اکساتا ہوں!
بعض لوگ جو ایسے ہوتےہیں شریر جن کہنے لگا جن کے اندر نیکی کا مزاج ہوتا ہے اور ان کی خواتین کو میں اکساتا ہوں پھر انہیں میں ایک تسلی دینے کے لیے کہہ دیتا ہوں کہ چلو ایسا کرو گانے بجانے سے پہلے ‘مرد عورت کے آپس میں ناچنے سے پہلے آپ ایک درود پاک کی محفل رکھ لو یا ایک محفل نعت رکھ لو‘ پھر وہ درود پاک اور نعت کی محفل رکھتے ہیں۔ اس میں بھی میں انہیں ایک وسوسہ ڈالتا ہوں جس میں‘ میں بہت زیادہ کامیاب ہوتا رہا اور ہاں وہ جن مزید بولا:میں نہیں مجھ جیسے اور جنات بھی اس میں کامیاب ہوتے ہیں‘ وسوسہ یہ ڈالتا رہا کہ جتنا ہوسکے بناؤ سنگھار کرو‘ فیشن کرو ‘ایک دوسرے سے مقابلہ کرو‘ پھر وہ درود پاک اورمحفل نعت تونہیں رہتی وہ فیشن کی محفل اور بناؤ سنگھار کی محفل بن جاتی ہے۔ میں اس پربہت خوش ہوتا ہوں اور مجھے تسلی ہوتی ہے کہ میں نے ان کو بہت زیادہ گمراہ کیا۔
تیل ‘ مہندی اور مایوں!!!نوٹ نچھاور اور ناچنا
ایک چیز شریر جن نے مزید بتائی کہا کہ جن لوگوں کی شادیاں ایسی ہوتی ہیں کہ جن شادیوں میں گانا بجانا ہوتا ہے‘ فیشن ہوتا ہے‘ آتش بازی ہوتی ہے جن شادیوں میں نوٹ نچھاور کیے جاتے ہیں ۔جن شادیوں میں تیل مہندی کی تقاریب ہوتی ہیں اورعجیب وغریب رسومات ہوتی ہیں جن میں اخراجات بہت زیادہ ہوتےہیں جن شادیوں میں مرد عورت اکٹھے ناچتے گاتے ہیں اورپھر ایک بات کہتے ہوئے خاموش ہوگیا اور داروغہ جیل کے پاؤں پڑگیا۔
گناہوں والی زندگی
کہنے لگا: مجھے رہا کردو‘ رہا کردو‘ غصے سے ڈانٹا توسیدھا ہوکر بیٹھ گیا اور سیدھا ہوکر کہنے لگا: آج تک ایک ترتیب اور چلائی ہے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے ہم تمام شادی کی مووی بنواتے ہیں‘ غیرمحرم مرد عورتوں میں جمع ہوتے ہیں اور پھر ان کی تصاویر بناتے ہیں۔ پھر ان کے دلوں میں وساوس ڈالتا تھا کہ ان میں جو خوبصورت عورتیں ہیں ان کی تصاویر ایک طرف کریں۔ اکثر ان سے رابطہ کرواتا اور عورت اور مرد گناہوں میں مبتلا ہوجاتے‘ اور دونوں گناہوں کی زندگی میں ڈوب جاتے تھے۔ مجھے اس سے خوشی ہوتی کہ وہ گناہوں کی زندگی میں ڈوب جائیں اور گناہوں کی زندگی میں رہیں۔
میں نے ان کی نسلوں میں بیٹے نہیں دیکھے!
اس نے اپنا واقعہ پھر دہرایا کہنے لگا: میں نیم کے درخت پر رہتا تھا اردگرد جو بھی شادی ہوتی تھی ان سب شادیوں کے اندر شرارت کا حصہ دار میں تھا اور سب کو گمراہ ‘برباد‘ پریشان اور سب کو نیکی سے ہٹانا‘ میں ہر شادی میں شرارت کرتا اور میری شرارت یہی ہوتی میں انہیں عیاشی کی طرف‘ فضول خرچی کی طرف مبتلا کرتا۔ میری عمر اس وقت سوا پانچ سو سال ہے میں نے اپنی زندگی کے ساڑھے چار سو سال لوگوں کو گمراہ کرتے اور لوگوں کو دین سے‘ ایمان سے‘ عشق مصطفیٰ ﷺسے اور اولیاءسے دور کرتے ہی گزری اور انسانوں کو نیکی سے دور کرنا ہی زندگی کا مقصد بنایا اور میں بہت کامیاب ہوا۔ میں نے ایک شادی میں جس کو تقریباً چار سال ہوگئے ہیں اور ان چارسو سالوں میں جن جن شادیوں میں میں نے بیہودہ رسومات کروائیں ان کی نسلوں میں بیٹے نہیں دیکھے اگر ملے ہیں تو بیماریاں‘ تکالیف‘ لاعلاج بیماریوں میں مبتلا اور بعض ایسی شادیاں جن کومیں نے عیاشی کی طرف مبتلا کیا اور گناہوں کی طرف مبتلا کیا ان کی نسلوں میں‘ میں نے طلاقیں کروائیں‘ آپس میں جھگڑے کروائے اور نفرتیں پھیلائیں۔
تجھ پر تیرے اپنے نے جادو کروا دیا
انہیں پریشان کیا اور ایسی ایسی لاعلاج بیماریاں اولاد میں پیدا کیں جن کا دنیا میں کہیں علاج نہیں تھا اور وہ ساری عمر علاج کے نام پر ترستے رہے‘ شفاء کے نام پر ترستے رہے۔اس شریر جن نے ایک انوکھی بات کہی ‘کہنے لگا: میںایک اور وسوسہ میں ڈالتا ہوں پہلے گناہ کرواتا ہوں‘ شادی کے نام پر‘ فضول خرچیاں کرواتا ہوں‘ موویز بنواتا ہوں پھر جب ان میں بیماریاں‘ تکالیف‘ بے اولادی‘ مشکلات‘ پریشانی‘ ذہنی الجھنیں‘ آپس میں جھگڑے ‘ناچاقی‘ نفرتیں‘ مارکٹائی‘ الجھنا تو جب یہ سلسلہ شروع ہوتا ہے پھر اور نفرتوں کے بیج بوتا ہوں اور ان کے دل میں ایک چیز ڈالتا ہوں کہ یہ جو کچھ بھی ہوا ہے یہ سب کچھ جادو ہے اور جادو کرنے والی تیری دیورانی ہے‘ یا جیٹھانی ہے یا ساس ہے یا بہو ہے قریبی رشتہ داروں کے دل میں وساوس ڈالتا ہوں۔
خواب میں نقشے دکھاتا ہوں
ایک اور کام کرتا ہوں کہ بعض اوقات انہیں خواب میں یہ نقشے دکھاتا ہوں کہ تیری فلاں رشتہ دار تیری یہ مخالفت کررہی ہے اوران کا شک یقین میں بدل جاتا ہے‘ آپس میں نفرتیں بڑھ جاتی ہیں اور ذہن الجھ جاتے ہیں۔ یہ میری زندگی کی ترتیب ہے اور میں اس طرح لوگوں کو گمراہ کرتا ہوں اور گمراہ کرنے کے بعد پھر ان کے لیے مشکلات کے نئے سلسلہ کھولتا ہوں پھر انہیں شیطانی وساوس کے ذریعے ایسے ایسے لوگوں کے پاس بھیجتا ہوں جو بظاہر تعویذ دینے والے لیکن وہ شکاری ہوتے ہیں‘ مال کے اور حسن کے۔ یا پھر انہیں میلوں پر‘ عرسوں پر‘ دھمالوں پر بھیجتا ہوں وہاں وہ پیسہ بھی خوب خرچ کرتے ہیں اور انہیں کچھ حاصل بھی نہیں ہوتا اور اپنی بربادی میں مسلسل آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔
جنات کس حد تک ہمیں گمراہ کرتے ہیں!
قارئین میں شریر جن کی بات سن رہا تھا ور مجھے حیرت ہورہی تھی کہ یہ شریر جنات انسان کی آنکھیںکس حد تک بند کردیتے ہیں اور کس حد تک ہمیں گمراہ کردیتے ہیں اور اتنا زیادہ دل کے اوپر پردے دے دیتے ہیں ۔
جنات کو انسانوں کےغم اچھے لگتے ہیں
ہمیں کوئی خیال تک نہیں آتا اور ہم شادیوں کے نام پر اپنی نسلوں کے لیے مسلسل پریشانی خود خریدتے چلے جاتے ہیں اور اگر ہم میں سےکوئی حیاء اور شرم دار لوگ سمجھائیں تو ہم چڑ جاتے ہیں اور جہاں ہم ان کو برے برے القابات سے نوازتے ہیں وہاں ان سے ناطہ رشتہ توڑ دیتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ شاید وہ ہماری خوشیوں میں رکاوٹ ہیں۔ ہماری محبتوں میں وہ رکاوٹ اور انہیں ہماری خوشیاں اچھی نہیں لگتیں اور انہیں ہمارے غم اچھے لگتے ہیں۔ ہم اپنی زندگی میں اتنے مشغول ہوجاتے ہیں کہ شادی کے بعد جو برا انجام ہوتا ہے اس برے انجام سے بے خبر ہوتےہیں اور وساوس ڈالنے والے شریرجنات جن کو قرآن نے
یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِ النَّاسِ مِنَ الْـجِنَّةِ وَ النَّاسِ
فرمایا: اس کو بھول جاتے ہیں پھر نسلوںمیں تکالیف‘مصائب‘ بیماریاں‘ دکھ بڑھتے چلے جاتے ہیں۔
موت مانگتے ہیں پر نہیں آتی!
اس شریر جن نے یہ بات مجھے خود بتائی کہ وہ بیماریاں وہ تکالیف وہ مسائل ہم پھر نسل در نسل منتقل کرتے ہیں اور نسلیں ان بیماریوں تکالیف‘ مشکلات اور مسائل میں الجھتی چلی جاتی ہے اور نسلوں کہ وہ مسائل بن جاتے ہیں نسلوں کی وہ مشکلات بن جاتے ہیں حالانکہ وہ تکالیف‘ بیماریاں شروع ہی شادی سے ہوتی ہیں اور بس ایک شادی کے بعد وہ اتنا زیادہ مسائل میں الجھتے ہیںاور انہیں اتنی زیادہ پریشانی ہوتی ہے کہ زندگی ایک مصیبت بن جاتی ہے ‘ موت مانگتے ہیں تو موت بھی نہیں آتی کیونکہ موت نے اپنے وقت پرآنا ہے اس کا اللہ کے امر کےساتھ تعلق ہے۔
شیطانی چیزوں کے دھوکے
میںاس شریر جن کی باتیں سن رہا تھا جو ٹھٹھہ کی جیل میں اپنی ان کرتوتوں کی وجہ سے قیدہے ۔ مجھے دکھ ہورہا تھا کہ ہم شادیوں کے نام پر اپنی نسلوں کومصائب‘تکالیف‘ دکھ‘ مشکلات اور غموں کے تحفے دیتے ہیں اور اپنے آپ کے لیے اور اپنے لیے دکھ اور مسائل ایسے چنتے ہیں اور دکھ اور مسائل ایسے خریدتے ہیں کہ خود ہمیں یہ خبر بھی نہیں ہوتی کہ ہمارے ساتھ شیطانی جناتی چیزوں نے کہاں کہاں دھوکہ کیا اور کہاں کہاں فریب کیا۔ خود ہمیں یہ خبر نہیں ہوتی اور یہ بے خبر اس میں مبتلا رہتے ہیں اور اس کو اپنی عظمت سمجھتے ہیں‘ اس کو اپنا وقار سمجھتے ہیں‘ اس کو اپنی شان و شوکت سمجھتے ہیں بلکہ اپنا ناک اونچا ہونا سمجھتے ہیں اور اپنی گمراہی میں ہم بڑھتے چلے جاتے ہیں۔
وہ تڑپتا جن کہیں مر نہ جائے!
ہم ایسی باتیں کر ہی رہے تھے کہ اچانک داروغہ جیل کے ایک خادم نے آکر اطلاع کی کہ حضور ساتھ ہی تیسری بیرک میں جس جن کو ہم نے اذیت دی تھی وہ بہت زیادہ تڑپ رہا ہے اور کہیں مر نہ جائے۔ یہ سنتے ہی میں بھی اٹھا اور داروغہ جیل بھی ساتھ ہوئے ‘ہم وہاں گئے تو ہم نے دیکھا کہ جن لوہے کی نوک دار تاروں سے لپٹا ہوا اور نوک دار تاریں اس کے جسم میں پیوست تھیں ‘ خون نکل رہا تھااور وہ تڑپ رہا تھا۔
یہ وہی ہیں جو شادیوں کے نام پر گمراہ کرتے ہیں
داروغہ جن نے دیکھا اور دیکھ کر اسے پاؤں سے ٹھوکر ماری اور کہا: بالکل ٹھیک ہے‘ فریب کررہا ہے۔ میں نے ساری زندگی جیل میں گزاری‘ میں بھی جن ہوں ‘یہ بھی جن ہے‘ اس کو کوئی مسئلہ نہیں۔ وہیںکھڑے میں نے داروغہ جن سے پوچھا کہ آپ یہ بتائیں: اس جن کا جرم کیا تھا؟
وہ کہنے لگے : علامہ صاحب یہ سارے وہی ہیں جو لوگوں کو شادیوں کے نام پر گمراہ کرتے تھے اور شادیوں کو اعلیٰ سے اعلیٰ بہترین بنانے میں ان کے دل میں وساوس ڈالتے تھے ‘ خفیہ مشورے دیتے تھےا ور ان کے وساوس اور خفیہ مشورے اتنے تھے کہ لوگ ان کی باتوں میں آتے تھے اور اپنی زندگی کا سارا کچھ گنوا دیتے تھے اور یہ انہیں تنگدست دیکھ کر‘پریشان دیکھ کر یہ خوش ہوتے تھے۔
نسلیں ویران‘ پریشان اور بیماریوں میں مبتلا
ان کے وساوس سے انسانوں کی نسلیں ویران اور پریشان ہوتی تھیں‘ بیماریوں میں‘ تکالیف میں‘ مشکلات میں مبتلا ہوتی تھیں‘ ان کو مشکلات میں دیکھ کر اور زیادہ خوش ہوتے تھے ‘یہ وہ جنات ہیں جن کے وار انسانوں پر ہی چلتے ہیں اور ان کا کام صرف انسانوں کو گمراہ کرنا اور انسانوں کو گمراہ کرنے کے بعد ان کی تکالیف اور پریشانیاں بڑھانا‘ مسائل مشکلات میں مبتلا کرنا اور یہ ان کا بہترین مشغلہ ہے کہ لوگ مسائل میں‘ تکالیف میں‘ دکھوں میں مبتلا اور ہوں بھی شادی کے نام پر‘ ان کا دن رات مشغلہ یہی ہے۔ ان کا دن رات انداز یہی ہے ۔
جو جنات یہ کام کریں انہیں اچھا نہیں سمجھا جاتا
ہماری جنات کی دنیا میں اس چیز کو بہت زیادہ معیوب سمجھا جاتا ہے اور جو جنات یہ کام کریں انہیں کبھی بھی اچھا نہیں سمجھا جاتا کہ وہ مخلوق خدا کو اتنا گمراہ کریں اور ان کے دل میں اتنی زیادہ گمراہی ڈالیں کہ وہ اپنا سب کچھ لٹا کر‘ اپنا سب کچھ برباد کردیں‘ آخر میںوہ نہ دین کے رہے نہ دنیا کے رہے۔میں نے ان سے سوال کیا داروغہ جن سے کہ کیا میں ان سے کچھ سوال کرسکتا ہوں؟ تو وہ کہنے لگے: بالکل آپ کرسکتے ہیں اور آپ ہمارے محترم اور مکرم مہمان ہیں‘ آپ جب بھی تشریف لاتے ہیں ہمارے لیے اعزاز ہوتا ہے۔ میں نے اس جن سے جو اب سے پہلے موت و حیات کی کشمش میں تھا اب داروغہ جیل کی ٹھوکر سے سنبھل کر ایک کونے میں سکڑ کر سر جھکا بیٹھ گیا۔ میں نے کہا میں تو کسی اور جن سے باتیں کررہا تھا اور واپس اسی کے پاس جارہا ہوں مجھے تم کوئی واقعہ سنا دو۔
ایک غریب مگر! نیک خاندان کی کہانی
اس نے تھوڑی دیر اپنی سانسیں درست کیں اور پھر مجھے ایک واقعہ سنایا۔جو ایک نیک خاندان کی کہانی تھی۔ کہنے لگا: میں اس خاندان کو صدیوں سے جانتا ہوں یہ بہت غریب لوگ تھے اور ان کا ایک کچا کمرہ ہوتا تھا اور اسی میں ان کے بڑے رہتے تھے۔ اتنا بھی نہیں تھا کہ اپنے کمرے کے اردگرد یہ دیوار کر سکیں۔ انہوں نے پتوں سے اپنے کمرے کے اردگرد دیوار دی ہوئی تھی اور ان کے ہاں غربت تھی‘ غربت اور تنگدستی تو تھی مگر ان کے ہاں درود پڑھا جاتا تھا ‘سلام پڑھا جاتا تھا‘ ذکر کیا جاتا تھا‘ تسبیحات پڑھی جاتی تھیں۔ ان کی خواتین قرآن پاک کی تلاوت بھی کرتیں‘ چکی بھی چلاتیں ‘ لسی بلوتے ہوئے بھی اللہ ھو کا ذکر اور درود پاک پڑھتی تھیں‘ ان کے مرد باہر سے مزدوری کرکے آتے تھے خواتین گھر میں چکی میں لوگوں کے گھروں کا آٹا پیستیں تھیں اور اس طرح گزارا ہورہا تھا۔
جنات کا انتقام بہت مشہور ہوتا ہے
ایک سلسلہ گزر رہا تھاپھر ان کی اگلی نسل میں کچھ مال و دولت کچھ چیزیں آئیں لیکن اتنی دولت نہ آئی‘ پھر اگلی نسل میں مزید کچھ دولت آئی‘ کچھ مال آیا‘ کچھ خوشحالی آئی تو انہوں نے بیٹے کی شادی کا سلسلہ ناطہ جوڑا لیکن انہوں نے بیٹے کی شادی بہت سادگی سے کی۔ میں نے بہت کوشش کی کہ میں ان میں وسوسے ڈالو لیکن چونکہ وہ قرآن پڑھتے تھے ، ذکر کرتے تھے اور ان کے گھر میں تسبیح پڑھی جاتی تھی۔ان کے گھر میں موسیقی میوزک یہ نہیں تھا۔ اس لیے میں اپنے وار میں کامیاب نہ ہوسکا۔ پھر آخر کار ایسا ہوا کہ ان کی شادی ہوگئی اور وہ خوشحالی سے رہنے لگے مجھے بہت غصہ تھا اور انتقام بھی کیونکہ ہمارا جنات کا انتقام بہت مشہور ہوتا ہے۔
میں ان کی نسلوںسےانتقام ضرور لوں گا!
نیک جنات تو کبھی انتقام لیتے نہیں لیکن شریر اور شیطان جنات ہمیشہ انتقام لیتے ہیں اور وہ بعض اوقات نسلوں سے لیتے ہیں‘ خاندانوںسے انتقام لیتے ہیں۔ میں نے سوچا کہ ان سے انتقام لوں گا تو میں ان کے انتظار میں رہا جس کی شادی کی اس کا پہلا ہی بیٹا ہوا پھر بیٹیاں ہوئیں پھر بیٹا ہوا۔
نوجوان بیٹے کی ضد
بیٹا جب جوان ہوا تو میں نے بیٹے کو پہلے دن سے ہی گمراہ کرنا شروع کردیا کہ شادی وہ کرنی ہے‘ زمانے کی طرح ‘رواج کی طرح‘ لوگوں کی طرح شادی کرنی ہے۔ جب بیٹے نے ماں باپ سے اپنی شادی کی‘ بات سنی تو وہ بھڑک اٹھا اور اُونچا اُونچا بولنا شروع ہوگیا کہ میں وہ شادی نہیں کروں گا جو آپ میری کرنا چاہتے ہیں۔ ورنہ میں شادی کے دن بھاگ جائوں گا‘ میں نے اپنی شادی میں گانا بجانا، فوٹو شوٹ، فلم، آتش بازی اور طوائفیں اور تمام رسم و رواج‘ تیل مہندی‘ مایوں کرنی ہیں۔
بوڑھےوالدین کی بے بسی
اس کی بات سن کر ماں باپ کا منہ کھلے کا کھلا رہا گیا ‘حیرت زدہ ہوئے اور کہنے لگے کہ تم کیا بات کررہے ہو؟ اور کیسی بات کررہے ہو؟ وہ کہنے لگا کہ بس جیسی بھی ہے میں نے جو کہہ دیا وہی ہوگا۔ پریشان ہوئے انہوں نے بیٹے کو سمجھایا‘ بیٹے کا ایک استاد تھا‘ اس نے بھی سمجھایا ۔ جتنا وہ سمجھاتے تھے میں اس کے دل میں اتنے ہی وسوسے ڈالتا ۔
اگر شادی فیشن کےمطابق نہ کی تو خودکشی کرلے گا
اِدھر والدین کے دل میں میں نے وسوسے ڈالنے شروع کیے کہ اگر آپ نے اس کی بات نہ مانی تو یہ خودکشی کرلے گا۔ گھر سے نکل جائے گا‘ آپ کو پریشانی ہوگی آپ زمانے میں ذلیل ہو جائیں گے اور ویسے بھی آپ کا دور اور تھا اس کا دور اور ہے۔ آپ کا زمانہ اور تھا اس کا زمانہ اور ہے۔ آپ کا سادگی کا زمانہ تھا اس کا زمانہ ماڈرن ہے‘ لہٰذا معاشرے کے ساتھ چلیں اور اس کا ساتھ دیں اور اگر اس کا ساتھ نہ دیا تو بیٹا ہاتھ سے نکل جائے گا ‘ مشکلات بڑھ جائیں گی‘ پریشانیاں بڑھ جائیں گی اور پھر تم ساری عمر بیٹھ کر بیٹے کو روئیں گے ۔
شادی ایسی کرو کہ زمانہ یاد رکھے
زنجیروں میں جکڑا ہوا شریر جن مزید کہنے لگا۔ اُدھر میں والدین کے دل میں وساوس ڈالتا تھا، اور اِدھر اس جوان کے دل میں وساوس ڈالتا تھا کہ شادی کونسا روز ہونی ہے‘ ایک ہی دفعہ ہونی ہے ۔ شادی ایسی کرو کہ زمانے کو پتہ چلے۔ اتنا خرچہ کرو کہ زمانہ خود حیران ہو۔ لوگوں کو کھلائو‘ پلائو ‘اتنی آتش بازی کرو کہ دنیا چھتوں پر کھڑی ہوکر دیکھے‘ موویز بنائو ‘ناچنا ہو‘ گانا ہو‘ خوب موج مستی ہو‘ آپس میں رسم و رواج ہو۔ اس کی آنکھوں کو میں نے اتنا اندھا کیا‘ اس کے دل میں روزانہ نئی نئی باتیں ڈالتا پھر ایک اور کام کیا۔
سادہ شادی! پتھر کے دور کی بات ہے!
وہ جن ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے کہنے لگا: میں نے اس کے دوستوں کو تیار کیا ‘اس کے دوستوں کو بھی ورغلایا ۔اس کے دوست اس کو آ کر کہتے تھے کہ تیرے والدین تو پڑھے لکھے ان پڑھ ہیں اور تیرے والدین پتھر کے دور کی باتیں کرتے ہیں۔ زمانہ تو چاند پر پہنچ گیا‘ سائنس نے کہاں سے کہاں ترقی کرلی اور تیرے والدین وہی سوچیں سوچتے ہیں جو پرانی سوچیں ہیں‘ ٹیڑھی میڑھی راہیں ہیں۔ والدین کی بات کو چھوڑ‘ میں تیرا ساتھ دوں گا اور ہم تیرے ساتھی ہیں اگر تیرے والدین تیری شادی پر خرچہ نہیں کرتے تو ہم کرتے ہیں۔
بھرپور رسم و رواج والی شادی
دوست اس کو غیرت دلاتے ‘اس کو شرم دلاتے ہیں‘ اس کو عار دلاتے تاکہ اس کے دل میں زیادہ سے زیادہ اس بات کا جذبہ پیدا ہو کہ میں نے شادی وہ کرنی ہے جس میں بھرپور رسم و رواج ہو ‘میں نے شادی وہ کرنی ہے جس میں بھرپور گانا بجانا ہو ۔ عورتیں اور مرد اکٹھے ہو کر ناچیں‘ گائیں اور تالیاں بجائیں‘ بھنگڑا ڈالیں‘ نوٹ نچھاور کریں‘ میں نے شادی وہ کرنی ہے جس شادی کی تعریفیں کرے‘ مثالیں دیں اور میں نے شادی وہ کرنی ہے جس شادی کے اوپر بہت خرچہ ہو‘ آخر میں ان کا بڑا بیٹا ہوں انہوں نے کمایا کس کے لیے‘ کیا غیروں کے لیے کمایا ہے اگر میری خوشیوں پر خرچ نہیں کریں گے تو اور کہاں کریںگے۔
والدین کی ذہنی کشمکش
یہ وساوس میں اس کے دل میں مسلسل ڈالتا تھا اور اس کے دل میں یہ وساوس مسلسل بھرتا تھا اور والدین کو خوف دلاتا تھا کہ اگر تو نے اس کی شادی پر توجہ نہ کی اور اس کی شادی اس انداز میں نہ کی جس انداز میں کرنی ہے تو ساری عمر پچھتائو گے جوان بیٹا ہے اور اگر کچھ باہر قدم اٹھا لے یا اپنے آپ کو مار ڈالے تو دولت تو پھر آجائے گی بیٹا تو نہ آئے گا۔ ان کو مسلسل میں خوف دلاتا اور مسلسل پریشانی میں مبتلا کرتا۔ کچھ مہینے تک یہ کشمکش رہی اور کشمکش بڑھتی چلی گئی ۔
جس گھر میں حیاء‘پردہ‘ شرم تھی! وہاں یہ کیاہورہا
والدین جن کی عمریں ڈھل رہی تھیں اس غم سے نڈھال ہوگئے‘ ان کی والدہ کو جوڑوں کا درد شروع ہوا اور بلڈ یشر شروع ہوگیا۔ والد کو سر میں چکر ، نیند ختم اور شوگر ہوگئی۔ یہ وہ لوگ تھے جن کے گھر میں حیاء تھا، پردہ تھی، شرم تھی، حجاب تھا ، جن کی عورتوں کو غیر مردوں نے نہیں چھوا تھا، نہیں دیکھا تھا۔ بیٹا مووی کے نام پر غیر مردوں کو گھر کے اندر بلانا چاہتا ہے اور موسیقی، میوزک کے نام پرخواجہ سرا اور طوائفوں کے نام پر وہ بے حیائی کے بیج بونا چاہتا تھا۔ وہ سمجھا سمجھا کر بیٹے کو تھک گئے۔
جناتی شیطانی چالیں
خاندان کے کچھ بڑوں نے اس کے بیٹے کو سمجھایا لیکن جتنا وہ سمجھاتے تھے اتنا میں اس کے دل کے اندر وساوس ڈالتا اور اکساتا حتیٰ کہ میں نے اسے بعض شیطانی خواب دکھائے اور وہ شیطانی خواب ایسے دکھائے کہ اس کی شادی ہورہی ہے‘ اس کے سہرے بندھے ہوئے ہیں اور وہ گھوڑے پر سوار ہے‘ اس کی بارات جا رہی ہے آگے بھی بجانے والے‘ دائیں بائیں بھی بجانے والے‘ پیچھے بھی گانا گانے والے ، طوائفیں اس کے ساتھ ناچ رہی ہیں اور وہ بڑے مغرورانہ انداز سےبیٹھا ہوا ہے‘ نوٹ نچھاور ہو رہے ہیں‘ سب نیچے چل رہے ہیں صرف گھوڑے پر وہی بیٹھا ہوا ہے۔ اس کے والد نے گھوڑے کی لگام تھامی ہوئی ہے اور چل رہا ہے اس کی والدہ بھی ساتھ ہیں اور دونوں خوش ہیں اور جو وہ چاہ رہا ہے وہ کررہے ہیں اور جو وہ چاہ رہا وہی وہ چاہ رہے ہیں۔
گھر میں شادی ہے‘ گھر کو قبرستان نہ بنائیں
اس طرح کے خواب اس کو میں دکھاتا تھا اس کے خوابوں میں آکر اپنے شیطانی جال بچھاتا تھا۔ اس کو مطمئن کرتا تھا، اس نے گھر میں ایسا ہنگامہ اور شور کیا کہ محلہ داروں کو پتہ لگا اور محلے دار بھی اس کی بات پر متوجہ ہوئے‘ یہ کیا پیغام ہے‘ کیا شور ہے کچھ محلے دار ایسےتھے جنہوں نے پہلے برا محسوس کیا نوجوان جو کررہا برا کررہا لیکن پھر میں نے ان کے دل میں وسوسے ڈالے ان میں سے دو بندے میرے ہوگئے جب ان میں کچھ اور تھے جو ذکر الٰہی کرتے ، نماز پڑھتے تھے، قرآن پڑھتے تھے، تسبیح پڑھتے تھے ان کی اللہ سے لو لگی ہوئی تھی وہ میرے نہ ہوئے لیکن دو میرے ہوگئے۔پھر ان پڑوسیوں کو میں نے ان کے اتنا قریب کیا کہ وہ پڑوسی دن رات ان کے والدین کو سمجھانے لگے کہ پہلی شادی ہے پہلی خوش ہے اور پہلی شادی اور پہلی خوشی میں اپنے گھر کو قبرستان نہ بنائیں بلکہ شادی تو نام ہی خوشیوں کا ہے۔ جی بھر کے خوشیاں کریں‘ آپ کی خوشی سے محلہ والوں کو بھی خوشی ہوگی اور جو بیٹا کہتا ہے اس کی مان لیں ۔
ابھی ناچ گانا ہونے دیں بعد میں توبہ کرلیں گے
چلو ایک بات نہ مانے کیونکہ بیٹے نے یہ بات بھی کہی تھی کہ میں نے روزانہ اپنے گھر کے سامنے رات کو ڈھول بجوانا ہے سات دن مسلسل ڈھول بھجوانا ہے۔ تو کہنے لگے کہ ایک بات ہم اس کو منوا لیتے ہیں کہ وہ سات دن مسلسل ڈھول نہ بجوائے باقی جتنی بھی رسومات ہیں‘ میوزک ہے، موسیقی ہے، مووی ہے، طوائفیں ہیں‘ خواجہ سرا ہیں، ان سب کو ناچنے دیں۔ کوئی بات نہیں بعد میں توبہ کر لیں گے۔
آخر کار والدین نے ہتھیار ڈال دئیے
ہر بندہ ان کے والدین کو سمجھانے والا تھا اور ایک طرف میں والدین کے دلوں میں وسوسے ڈالنے والا تھا، تشویش ڈالنے والا تھا کہ خیال کرنا، اس کی بات مان لینا، اگر نہ مانی تو بیٹا بہت بڑا قدم اٹھا لے گا، نقصان ہو جائے گا، بربادی ہو جائے گی، حادثہ ہوجائے گا اور پریشانی ہو جائے گی اور ایسی پریشانی ہوگی‘ مسائل ہوں گے کہ تمہیں زندگی بھر کا پچھتاوا ہوگا اورمیں نہیں چاہتا کہ تمہیں زندگی بھر کا پچھتاوا ہو اور میں نہیں چاہتا کہ تم زندگی بھر اپنی اولاد کو اور بیٹے کو لے کر روتے رہو لہٰذا ایسا نہ کرو۔ یہ چال میں مسلسل چلتا رہا اور ان کے دلوں میں یہ وساوس مسلسل میں ڈالتا رہا۔ آخر کار اس کے والدین مجبور ہوگئے، بیماریوں اور روگ اپنے آپ کو لگا ہی بیٹھے تھے لیکن انہوں نے بیٹے کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔
جس گھر سے تسبیح ‘درود اور تلاوت کی صدائیں بلند
ہوتی تھی وہاں آج طوائفیں ناچ رہیں
پھر زمانے نے دیکھا جس گھر میں ہمیشہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی صدائیں بلند ہوتی تھیں اور جس گھر میں ہمیشہ ذکر ‘تسبیح اور تلاوت ہوتی تھی جو گھر لوگوں کو ہمیشہ یہ کہتا تھا کہ شادیاں کرنی ہے تو اللہ تعالیٰ کے نام کونہ بھولنا اور اللہ کے نام کی تسبیح کو نہ بھولنا ‘ اسی گھر میں طوائفیں ناچیں۔ آج یہ وہی لوگ ہیں جن کے گھر کےساتھ بے حیائی کا لیبل لگا‘ صرف ایک جوان کی وجہ سے اور اس جوان نے سارے گھر کو بدنام کیا ‘لوگ طرح طرح کی باتیں کرنے لگے کہ یہ وہی خاندان تھا جس خاندان نے ساری زندگی لوگوں کو نیکی کی طرف بلایا تھا‘ نیکی کی تلقین کی اور نیک بننے کا کہا یہ وہی خاندان تو ہے جو حیا ، شرم کو اپنے قریب رکھتا تھا ۔ بے حیائی کو فحاشی کو دور رکھتا تھا۔ آج اس خاندان کو کیا ہوگیا۔ والد گھر چھوڑ گیا ۔ قریب ایک مسجد میں جا کر اس نے ڈیرے ڈال لیے۔
جب بے حیائی دیکھی تو ماں بے ہوش ہوگئی
ماں اکیلی تھی بیماریوں کا روگ اپنے آپ کو لگا بیٹھی تھی لیکن بیٹے کی خوشی کے خاطر اپنے گھر میں وہ سب کچھ دیکھ رہی تھی جو اس نے زندگی میں کبھی سوچا نہیں تھا۔ حتیٰ کہ اس گھر میں جب مووی بنانے والے داخل ہوئے تو بیٹے کی کچھ رشتہ خواتین اس کے ساتھ تھی جن کو وساوس ڈال ڈال کر میں نے آمادہ کیا اس کے دوست تھے‘ ماں نے جب یہ منظر دیکھا۔ اچانک کمرے میں چلی گئی اور کمرے میں جا کرایک چارپائی پر لیٹ گئی اور بے ہوش ہوگئی۔
شیطانی چالوں نے ماں کی مامتا کو بھلا دیا
بے حسی اتنی بڑھی کے کسی نے پوچھا تک نہ کہ ماں کہا ںچلی گئی‘ بہت دیر کے بعد حتیٰ کہ جب بارات کی رخصتی کا وقت آیا تو پتہ چلا کہ ماں نہیں ہے۔ ماں کو ڈھونڈا گیا ماں تو اندر بے ہوش سکتے کی حالت میں پڑی ہوئی تھی۔ ہمدردوں نے اُسے اٹھایا اور ہسپتال لے گئے۔ بہت کوشش کے بعد وہ ہوش میں آئی لیکن وہ اپنا ہوش وحواس ختم کرچکی تھی۔ یہ ساری چیزیں وہ بیٹا دیکھ رہا تھا لیکن میں نے اس کی آنکھوں اور دل پر اتنے پردے ڈالے کہ میں خوش ہوا وہ میری شیطانی چالوں میں اتنا آیا کہ ماں کی مامتا اور ماں کی محبت کو بھول گیا۔
بیٹا ماں باپ کے بغیر ہی بارات لے گیا
اتنا بھولا کہ ماں کی تکلیف کا اُسے احساس تک نہ ہوا حتیٰ کہ اس نے مزید انتظار نہ کیا اور ماں باپ کے بغیر بارات دوستوں اور رشتے داروں کو لے کر چلا گیا۔ وہاں نکاح ہوا، رخصتی ہوئی اور خوب گانا بجانا ہوا۔ طوائفیں اور خواجہ سرا ناچےلیکن اُسے ماں کے جانے کا احساس نہ ہوا کہ ماں اس کی خوشیوں میں شریک نہیں۔ وہ ہی ماں تھی جس نے تکالیف اور دکھوں سے اس کو 9ماہ اپنے پیٹ میں سنبھالا ‘جنا اور خود اس کے پیشاب کی جگہ پر سوتی تھی اور یہ اسے خشک جگہ پر سلاتی تھی اور وہی ماں تھی جس نے اس کی خوشیوں کے ارمان اور خواب دیکھے تھے۔ اس ماں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ میرا بیٹا ایسا بھی ہوگا اور اتنا مجھ سے دور چلا جائے گا‘ میری زندگی اور اس کی زندگی میں اتنا زمین و آسمان کا فرق ہو جائے گا۔
والدین بستر پر! بیٹا اپنی خوشیوں میں مگن
کبھی کبھی اگر بیٹے کے اندر کا ضمیر جاگتا بھی تو میں اپنے وساوس کے ذریعے اُسے تھپکیاں دے کر اُسے سلا دیتا تھا اور اس کے دل میں یہ بات ڈال دیتا تھا‘ کوئی بات نہیں ماں ٹھیک ہو جائے گی ‘اس نے کچھ غم اور ٹینشن لی ہے۔ تم اپنی بیوی کو کہنا وہ اس کی اتنی خدمت کرےگی کہ اس کو سارے غم بھلا دے‘ میں اس کو اور تسلیاں بھی دیتا اور وسوسے بھی ڈالتا۔ ماں ہسپتال سےگھر آگئی تھی اور اِدھر بہو بھی آگئی۔ چند دنوں کے بعد باپ واپس گھر آیا لیکن دونوں بستر سے لگ گئے۔
وہ سارا دن خاموش تکتے رہتے تھے اور بیٹا دن رات اپنی خوشیوں میں مگن، اُسے کسی کا احساس نہیں تھا ‘اس کے دل میں کسی قسم کی کوئی ہمدردی ماں باپ کے بارے میں ہرگز نہیں تھی۔ اِدھر میں نے اُنہیں ان مصائب میں مبتلا کیا‘ اپنے شیطانی وساوس، شیطانی چالوں اور شیطانی جالوں کے ذریعے اور میں اپنی شیطانی چال اور جال ان پر مزید ڈالتا چلا گیا اور وہ میرے جال میں پھنستے چلے گئے۔اُدھر جو نئی بہو آئی تھی اس لڑکی کے دل میں ڈالا کہ یہ گھر تو مریضوں کا گھر ہے‘ اس گھر میں سارے مریض ہیں‘ کیا مجھے ان سب کی خدمت کرنا پڑے گی؟ مجھے تو پہلے نہیں بتایا گیا کہ اس گھر میں اتنے مریض ہیں ۔ میرے والدین نے تو کہا تھا گھر میں صحت مند لوگ رہتے ہیں‘ ہم نے دیکھا تھا‘ پرکھا تھا لیکن آج نقشہ ہی بدلا ہوا ہے۔
یہ وہی لوگ نہ تھے جو دوسروںکو نصیحتیں کرتے
حالانکہ وہ واقعی پہلے صحت مند لوگ ہی رہتے تھے اور صحت مند زندگی گزارتے تھے لیکن ایک بیٹے نے سارے گھر کے نظام کو اُلٹ اور پلٹ کر رکھ دیا اور وہی گھر جو لوگوں کو خوشیاں، صحت کے پیغام ،تندرستی اور مسکراہٹیں دیتا تھا ‘آج وہی گھر ہے جو بیماریوں، تکالیف، دکھوں اور مختلف لوگوں کے طعنوں کا محور اور مرکز بنا ہوا ہے۔ لوگ طعنے دیتے تھے کیا آپ ایسے لوگ ہیں جو لوگوں کو تو کہتے تھے اپنی شادیوں میں سادگی اور اپنی شادیوں میں غریب پروری، بے جا اصراف‘ فضول خرچی نہ ہو، کیا یہ وہی لوگ نہیں تھے جو ایسی شادیوں میں نہ جاتے تھے جہاں گانا بجانا ہو اور طوائفوں کا نظام ہو، کیا وہی نہیں تھے جو لوگوں کو نصیحت کرتے کرتے نہیں تھکتے تھے۔
وہ جیتے جی زندگی کی بازی ہار گئے
ایک طرف بیٹے کے غم نے ان کو دوہرا کردیا دوسری طرف لوگوں کے طعنوں نے اور باتوں نے ان کے اندر کی روح کو نکال دیا اور وہ جیتے جی زندگی کی بازی ہار گئے ۔ مرنا بھی چاہتے تھے تو مر نہیں سکتے تھے جینا بھی چاہتے تھے پر زمانہ جینے نہیں دیتا تھا اور نہ پھر لگے ہوئے روگ،دکھ، تکالیف ان کو جینے نہیں دیتی تھیں۔ یہ زندگی کی کشمکش تھی جو ان کے ساتھ چل رہی تھی۔ تین ہفتے بہو رہی اور تین ہفتے کے بعد بہو اور بیٹے کے درمیان ایک طویل جھگڑا شروع ہوا۔ وہ کہتی تھی باہر سے بنا ہو لاؤ اور خود بھی کھا مجھے بھی کھلا یا اپنی ماں کا کہہ وہ اٹھے اور کیونکہ میں نے ساری عمر کالجز اور یونیورسٹیوں میں پڑھا ہے۔ میں نے زیادہ کھانا پکانا نہیں سیکھا اور تو مجھےزیادہ کھانا پینا اور پکانے کی توقع نہ رکھ۔ اگر زیادہ توقع رکھے گا تو اتنا بھی کر سکتی ہوں کہ میں اپنی ماں سے کہوں گی کہ مجھے روزانہ گاڑی پر آکے پکا کر دے جائے۔
نئی بہوکے دل میں احساس نام کی کوئی چیز نہیں
شوہر کہتا تھا کہ میرے ماں باپ کی خدمت کر میں نےتجھے لانے کی وجہ سے ان کو اتنا پریشان کیا ہےکہ وہ اپنے آپ کو اتنا بڑا روگ لگا بیٹھے لیکن اس لڑکی کے دل میںاحساس نام کی کوئی چیز نہیں تھی ۔ یہ بے حسی کا سلسلہ چلتا رہا توتکرار لڑائیوں اور آپس کی نفرتوں میں چلی گئیں اور ایک دکھ تو پہلے ہی تھا اور والدین بیچارے اپنے بستر پر پڑے ایک نیا دکھ دیکھ رہے تھے کہ ہم نے تو یہ سب کچھ اسی لیے کیا کہ گھر میں سکون آئے گا چین آئے گا‘ بیٹا محبتوں کے ساتھ پلا تھا اور محبتیں بانٹے گا لیکن یہ نفرت کی ایک انوکھی داستان شروع ہوگئی۔
گھریلو مشکلا ت اور پریشانیاں
ان کی بیماریاں بڑھنے لگیں ان کے مسائل، ان کی مشکلات، ان کی تکالیف بہت زیادہ بڑھتی چلی گئیں حتیٰ کہ اتنی بڑھتی چلی گئیں کہ ڈاکٹر خود ان کے علاج سے عاجز آگئے اور وہ کہنے لگے آپ انہیں نقل مکانی کروائیں یعنی کسی ایسی جگہ لے جائیں جہاں اچھی آب و ہوا ہو ، خوشگوار فضا ہو، اچھا ماحول ہو اور یہ گھر کے ماحول سے دور رہیں۔ بات تو درست تھی لیکن انہیں لے جانے والا کوئی نہیں تھا اس منزل پر پہنچانے والا کوئی نہ تھا۔ کون لے جائے؟ کون پہنچے؟ کون ان کی سنے؟ اور کون ان کی بات پر توجہ کرے؟ وہ بیچارے اسی کسمپرسی میں‘ کبھی علاج نہیں ہوتا تھا، کبھی کھانا نہیں ملتا تھا حالانکہ گھر میں سب کچھ تھا۔ سب نعمتیں تھیں لیکن ساری نعمتوں کے بعد بھی وہ دونوں جو کہ اپنے بیٹے کے اس غلط فیصلے کی وجہ سے بستر مرگ پر چلے گئے۔ دن رات سسکتے رہتے تھے اور دن رات تڑپتے رہتے تھے اور سسکنا تڑپنا حتیٰ کہ بڑھتا چلا گیا ۔ ان کا گھر مصائب کا آنگن ، پریشانیوں کو محور بن گیا۔
ان کے گھر میں مشکلات، مسائل اور بیماریوں نے تو پہلے کی ڈیرے ڈال دیئے تھے لیکن اب جھگڑے اور میاں بیوی کی توتکرار نے اور زیادہ آپس میں دلوں کو توڑ کر رکھ دیا اور ایسا ہونا اسی لیے بھی لازم تھا کہ یہ رشتے کا انتخاب اس لڑکے کا انتخاب تھا‘ ماں باپ کا انتخاب نہیں تھا کیونکہ ماں باپ کچھ اور چاہتے تھے اس کی بغاوت اور اس کا ایسا زیادہ نظام بنا کہ ماں باپ پہلے دن سے اس رشتے کو نہیں چاہتے تھے لیکن آخر اس شادی پر آخر کارمجبور ہوگئے۔
جس شادی میںوالدین کی دعائیں نہ ہوں
انہیں شادی کرنا پڑی کیونکہ ہر وہ شادی جس کے ساتھ ماں باپ کی دعائیں نہ ہو ں بلکہ آہیں ہوں‘ وہ کبھی بھی خوشیوں‘ خوشحالیوں اور کامیابیوں کا ذریعے نہیں بنتی بلکہ مشکلات، مسائل، الجھنیں اور ناکامیاں ان کا ہمیشہ مقدر رہتی ہیں اور وہ لوگ ٹوٹے رہتے ہیں جڑے نہیں رہتے‘ اُلجھے رہتے ہیں سلجھے نہیں رہتے۔ وہ جدا رہتے ہیں کبھی جمع نہیں ہوتے۔ حالات ان کے ہمیشہ نامنافق ہوتے ہیں۔ کبھی منافق نہیں ہوتے۔ یہ ناموافقت بہت عرصے تک چلتی رہی کیونکہ شادی کا تعلق اصل میں لڑکے اور لڑکی کے پیار سے تھا‘ وہ پیار کم ہوتے ہوتے آخر کار نفرت میں تبدیل ہوگیا ۔ ماں باپ یہ دیکھ کر تڑپ رہتے تھے ‘سسک رہے تھے۔ کچھ عرصہ بعد باپ کو اچانک فالج ہوا اور فالج بھی اتنا خطرناک ہوا کہ وہ بستر پر ہی پیشاب پاخانہ کرنے لگے انہیں پتہ نہیں چلتا تھا اور نیم غنودگی میں چلے گئے۔
جن سسک رہا تھا مگر اس پر ترس نہ آیا
وہ جن سسکنے لگا اور رونے لگا اور کہنے لگا مجھے پھر بھی ترس نہ آیا میں نے اب بیٹے کے دل ایک بات ڈالی کہ جب اپنی خوشیاں تھیں‘ انہوں نے دیکھ لیں اب میری خوشی کا وقت آیا ہے تو بیمار ہوگئے۔ بجائے اس کے کہ میں اس بیٹے کے دل میں محبت ڈالتا‘ میں نے اس کے دل میں نفرت ڈال دی۔ آخر کار بیٹے کی اولاد ہوئی اور اس کو ایک خوبصورت بیٹا ملا لیکن وہ بیٹا ماں باپ کی خوشیوں میں شامل اس لیے نہ تھا کہ باپ نیم غنودگی میں ، ماں حالت بستر میں اور گھر ایک کھنڈر بنا ہوا تھا ‘یہ بہو دن چڑھے اٹھتی تھی‘ رات کا آخر حصہ اس کے سونے کا وقت ہوتا تھا ۔ ہسپتال میں آپریشن سے بچہ ہوا۔ بچہ خوبصورت تھا لیکن کچھ دنوں کے بعد پتہ چلا کہ بچے میں خون کی کمی ہے اور بچے کے دل میں سوراخ ہے اب اس کا باقاعدہ بھرپور علاج شروع ہوا۔ ہسپتالوں کے چکر اور ہسپتالوں کا نظام۔ علاج ہوتے ہوتے آخر طے ہوا کہ بچے کے دل کا آپریشن ہو لیکن ڈاکٹرز اس آپریشن سے منع کررہے تھے کہ بچے کی عمر ابھی تھوڑی ہے چند ماہ کی ہے علاج معالجہ ہوتا گیا بچہ آہستہ آہستہ سوکھنا شروع ہوا اور اس کی ایک ٹانگ سوکھ گئی جو اس بات کی دلیل تھی کہ جس طرح باپ کو فالج ہوا اور وہ چلنے پھرنے سے معذور ہوگیا اس طرح اس بچے کو بھی فالج ہوا جو کہ بظاہر فالج نہیں تھا لیکن اس کی علامات یہی تھیں لیکن اس بات کی دلیل بن گئی کہ بچہ بڑا ہوکرچل پھر نہیں سکے گا اور ایک متوازن زندگی نہیں گزار سکے گا بلکہ ابنارمل اور غیر متوازن زندگی گزارے گا۔
میری ساس نے مجھ پر جادو کروایا ہے
وہ شریر جن مزید کہنے لگے: اگلی بات میں نے اس گھر میں جھگڑ ا کرانے کے لیے یہ ڈالی کہ میں نے اس کی بہو کے دل میں یہ بات ڈالی کہ میری ساس نے میرے اوپر کہیں سے جادو کروایا ہے اور بددعا دی ہے۔ اس کے دل میں ساس کی نفرت اور بڑھنے لگی اور نفرت بڑھتے بڑھتے اتنی بڑھی کہ اس نے ساس کو گھر رکھنے سے انکار کردیا اور اعلان کیا کہ یا ساس رہے گی اس گھر میں یا میں رہوں گی۔ پھراس لڑکی کی آنکھیں کھلی کہ یہ اچانک کیا ہوا؟ لیکن میں اس کو پھر اپنے وسوسوں کی نیند سلا دیتا تھا اور اپنے جال کے ذریعے اس کو پھر خوابوں میں مبتلا کردیتا تھا۔
وہ جوان میرا ساتھی بن گیا
وہ جوان میرا ساتھی بن گیا اس کے رشتہ داروں میں جہاں بھی شادی ہوتی تھی میں لوگوں میں وسوے ڈالتا کہ شادی جیسے اس کی بہترین ہوئی اور زمانے نے واہ واہ کی تھی اس کو بلائو کہ وہ شادی کی ترتیب بتائے۔ اس کو بلاتے تھے اور وہ شادی کی ترتیب بتاتا تھا اور زمانہ اس کی ترتیب پر چلتا تھا اور شادی میں بہت دندناتے ہوئے چلتا ‘مغرور چال چلتا کہ لوگ مجھے مانے کہ میری شادی میں لوگوں نے اتنی واہ واہ کی ہے‘ سوائے چند لوگوں کے جو پتھر کے دور کی باتیں کرتے ہیں بہت لوگوں نے اسے اچھا کہا ہے۔ اکثر رشتہ دار اور دوست اس کو شادی پر بلاتے وہ ان کی شادیوں میں آتش بازی ، پٹاخے، شور شرابا، طوائفیں، خواجہ سرا، موویز بنانے والے ان کا انتظام کرتا۔ اب ان لوگوں سے ان کے رابطے ہوگئے تھے اس کے ایک کہنا پر وہ چلتے تھے کیونکہ انہیں کاروبار ملتا تھا اور وہ ان لوگوں کو منہ مانگے پیسے دلواتا تھا۔ یہ شخص جس نے پہلے دن اپنی شادی پر بے حیائی کی انتہا کردی، بے شرمی کی انتہا ایسی کی کہ ماں باپ خود اپنی زندگی سے اور اپنی خوشیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس نے لوگوں کے گھر برباد کرنا شروع کردیئے۔ اس نے لوگوں کی زندگیوں کو تاریک کرنا شروع کیا۔ سب کے گھر میں یہ جاتا اور وہاں سارے شادی کے غیر شرعی نظام جس سے اللہ کی رحمت ہٹ جاتی، مدینے والےﷺ کی محبت دور ہو جاتی اور رحمت کے فرشتے اس گھر سے دور ہوتے یہ سب کچھ کرتا۔
فحاشی عریانی کی آخری حدیں
وہ شریر جن بول رہا تھا اور میں خاموشی سے اس کی داستان سن رہا تھا۔ وقت گزارنے کا احساس تک نہ رہا اور خود داروغہ جیل اس کو حیرت سے سن رہا تھا۔ یہ جناتی شیطانی چیزیں انسانی دلوں میں وساوس کیسے ڈالتی ہیں اور انسانی دلوں کو تاریک اور ویران کیسا کرتی ہیں اور انسانی دل اس کی وجہ سے کس طرح برباد ہوتے ہیں؟ وہ مزید کہنا لگا کہ وہ جوان میرا ساتھی بن گیا جو دن رات لوگوں کو فحاشی، عریانی‘ مختصر لباس پہننا‘ دوستوں کے ساتھ اپنی فیملیوں کو لے کر گھومنا پھرنا اور اس میں عار نہ سمجھنا اور ایک ہی کمرے میں دونوں کی فیملیوں کا سونا حتیٰ کہ وہ مری کی سیریں‘ پہاڑی علاقوں کی سیریں اور دوسری سرسبز و شاداب جگہوں کی سیریں اپنے دوستوں کی بیویوں کے ساتھ اور اپنی بیوی کے ساتھ کرتا۔ اپنے گھر کے افراد ‘اس کے اندر حیا، شرم بالکل ختم ہوچکی تھی ۔ وہ شریرجن کہنے لگا: میں نے اس کی غیرت کو ختم کیا اور اپنی شیطانی چالوں کے ذریعے اس کی غیر ت کو دل کی کیفیات سے نکال دیا اس کے پل پل کو میں نے ویران کیا۔ مدہوش کیا ۔وہ جوان میرا بہترین نمائندہ ثابت ہوا اور ایسا نمائندہ ثابت ہوا کہ جب بھی کسی کو شادی میں وہی کچھ چاہنا ہوتا تھا جو اس نے اپنی شادی میں کیا تھا تو اس کو بلاتے اس کو بٹھاتے اس کی عزت کرتے اس کی تعریفیں کرتے وہ پھولا نہ سماتا تھا۔
شادیوں میں وہی کچھ کرواتاجو چاہتا
پھر وہ ان کی شادیوں میں وہی کچھ کرواتا جو اس نے اپنی شادی میں کیا تھا اور ان کی شادیوں میں بھی وہی کچھ ہوتا جو اس کی اپنی شادی میں تھا۔ اس کی زندگی اسی انداز میں چلتی گئی حتیٰ کہ ایک دن اس کے والد فوت ہوگئے وہ جھوٹے آنسو رو رہا تھا ‘وہ شریر جن کہنے لگا میں اس کے دل کی کیفیات کو پڑھ رہا تھاکہ وہ بہت مطمئن تھا اور اس سے زیادہ اس کی بیوی بہت خوش تھی اور بہت مطمئن تھی کہ گھر سے ایک زندہ لاش قبر میں منتقل ہوگئی۔ وہ بہت مطمئن تھا کہ سب سے زیادہ اعتراض کرنے والے والد چلے گئے اور ماں کا انتظار کررہا تھا اور اس کی بیوی بعض اوقات کھلے منہ یہ کہتی کہ تیرا باپ تو چلا گیا اب ماں کب جائے گی؟ گھر میں جراثیم گندگی ہے جو اس نے پھیلائی ہوئی ہے حالانکہ وہ خود اٹھتی تھی، حاجت پیشاب کے لیے لیکن بیماری کی حالت میں، قدرت کا کرنا ایسا ہوا کہ ایک دن بیٹھے بٹھائے اس کے بچے کو سخت تکلیف ہوئی اتنی سخت تکلیف ہوئی کہ اس کا بچہ رو رو کو دوہرا ہوگیااس کو ہسپتال لے کربھاگے اور ہسپتال میں انکشاف ہوا اس بچے کو خون کا کینسر ہوگیا ہے اور ایک بُری خبر سننے کو ملی کہ آپ آئندہ اولاد کی کوشش نہ کریں کیونکہ آپ کی پیدا ہونے والی اولاد خون کے کینسر میں مبتلا ہوگی۔
جو بھی بچہ ہوگا وہ معذور ہوگا
یہ بری خبر سنی تو انہیں بہت پریشانی اور حیرت ہوئی لیکن پھر میں نے اپنا کام کیا وہ شریر جن کہنا لگا کہ میں نے پھر اس کے دل میں وساوس ڈالے کہ سسر تو مر گیا پہلے بھی یہی ساس تھی جو میرے اوپر جادو کرتی اور کرواتی اور بددعائیں کرتی حالانکہ وہ سارا دن وہ تسبیحات ، ذکر اور اللہ سے مانگتی رہتی تھی کہ ہمارا کونسا ایسا گناہ ہے اور جو بھی ایسا گناہ ہے ہم اس سے معافی مانگتے ہیں جس کی وجہ سے تو نے اتنی بدکردار ، نافرمان اولاد مجھے دےدی۔ میرا شوہر آخر اس غم کو دل سے لپیٹ کر مر گیا اورمیں بھی تیرے پاس آنے والی ہوں لیکن کیا یہی غم لے کر آئوں گی۔ وہ تو سارا دن دعائیں مانگتی تھی ان کی بلائیں لیتی تھی اور اللہ تعالیٰ سے ان کے لیے خیر و عافیت مانگتی تھی لیکن میںنے اس کو پھر وساوس ڈالے اور اتنے سخت وساوس ڈالے کہ وہ اس وسوسے میں بہت آگے نکل گیا۔ اب ان کے گھر میں ایک ہی بیٹا تھا اور ایک حمل تھا اور جو اطلاع ملی تھی ڈاکٹر سے کہ آپ کا آئندہ جو بھی بچہ ہوگا بیمار ہوگا، اور معذور ہوگا اور زمانے کے لیے بوجھ ہوگا۔ اب ڈاکٹروں کی رائے یہ تھی کہ یہ پیٹ والا بچہ اس کا حمل ساقط کردیا جائے ختم کردیا جائے لیکن وہ نہیں چاہتی تھی۔
شادی پر اللہ اور اسکے رسولؐ کی نافرمانی لے ڈوبی
اب اس نے مختلف پیروں اور عاملوں کے پاس جانا شروع کردیا‘ انہوں نے اس کو طرح طرح کی کہانیاں سنانا شروع کیں۔ طرح طرح کی باتیں بتائی پیسے لیے کچھ تعویذ دیئے، وہاں سے کام نہ بنا تو اس نے کچھ درباروں اور میلوں پر جانا شروع کردیا حالانکہ اصل بنیاد شادی تھیجس شادی میں اس نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی نافرمانی کی اور شادی میں اللہ اور رسولﷺ کا کوئی لحاظ نہ رکھا اور وہ بددعا ان کے ساتھ رہی اور تعاقب کررہی تھی ۔ مشکلات تھیں‘ بیماریاں تھیں اور انوکھا نظام یہ چلا کہ وہ جوان جہاں جہاں بھی شادیوں میں جاتا تھا اور وہ شادیاں کرواتا تھا۔
جھگڑے‘ مارکٹائی اور طلاقیں! وجہ جان لیں!
کچھ ہی عرصہ بعد ان کے گھر میں جھگڑے، تکالیف، پریشانیاں یا طلاقیں یا آپس میں مارکٹائی، تو تکرار گھر ٹوٹ جاتے تھے زندگی ویران ہو جاتی تھیں، حالانکہ شادیاں تو خوشیوں کے لیے کی جاتی ہیں۔ ایک اور بات اس نے کہی وہ شریر جن کہنے لگا کہ میں نے ایک اور نتیجہ دیکھا ہے جن لوگوں نے اس انداز سے شادیاں کیں ہیں جن شادیوں میں فحاشی، عریانی ، مووی، موسیقی ، فضول خرچی ہو میں نے ان کی نسلوں میں ہمیشہ کاروبار میں زوال دیکھا ہے۔ وہ کاروباری زوال یا تو فوراً ہوا ہے یا ان کی نسلوں میں زوال شروع ہوا ہے۔ مشکلات، کاروباری زوال، نقصانات، تنگی، پریشانیاں،وہ جو لوگ اچھے خاصے کھاتے پیتے تھے جن کے گھر میںخوشحالی تھی، ناکامیاں نہیں تھیں، پریشانیاں نہیں تھیں ہر وقت گھر میں رزق تھا‘ صحت تھی‘ عزت تھی‘ شان و شوکت تھی‘ میں نے انہیں زندگی میں بہت پریشان حال دیکھا۔ شادیوں کے اخراجات کے بعد یا تو ان پر قرضے ہوگئے ۔
زندگی ایک بوجھ بن گئی
اس کی نحوست اتنی تھی کہ ان کی زندگی میں سب خوشیاں، سب خوشحالیاں، سب راحتیں، سب خیریں نکلتی چلی گئیں اور ان کی زندگی ایک بوجھ بن گئی، ایک مشکل بن گئی ایک اُلجھن بن گئی اور ایک پریشانی کا ذریعہ بن گئی۔ راحتیں دور ہوگئیں خیریں ان سے دور ہوں گئیں اور مشکلات ان کے بہت قریب آگئیں اور وہ زندگی میں ایک وقت ایسا آیا کہ وہ مانگنے والے بن گئے وہ خود دینے والے تھے۔ ان کی دکانیں ویران ہوگئیں ان کی کھیتیاں بیابان ہو گئیں‘ برباد ہوگئیں ان کی صنعت تجارتیں ختم ہو گئیں وہ نحوست ان کو کھا گئی۔ وہ پریشانی ان کو کھا گئی۔
آنکھوں پر ہمیشہ دھوکے کی پٹی
وہ شریر جن کہنے لگا کہ میں ایسے لوگوں کی آنکھوں پر ہمیشہ دھوکے کی پٹی باندھ کر رکھتا ہوں اور ان کو ہمیشہ دھوکے میں رکھتا ہوں ان کو زمانے کے اُچھل کود دکھاتا ہوں کہ فلاں کیسے شادی کررہا ہے‘ دیکھو فلاں کیسے ناچ رہا ہے‘ گھوم رہا ہے‘ فلاں کیا کررہا ہے‘ فلاں کیا کررہا ہے ۔ میں انہیں یہ انداز دکھاتا ہوں انہیں مست رکھتا ہوں مدہوش رکھتا ہوں اور انہیں مطمئن رکھتا ہوں انہیں دین کےقریب نہیں آنے دیتا کہ وہ سچی راہوں کے سچے راہی بنیں۔
بے برکتی کے فیصلے
وہ سوچیں‘ وہ خیال کریں‘ گمنام کریں ہرگز نہیں بلکہ وہ ایک دوسرے سے الجھتے رہیں‘ ایک دوسرے کو الزام دیتے رہیں کہ اس نے مجھے پر جادو کیا اس نے مجھے پر تعویذ کیا‘ اس نے مجھ پر جنات چھوڑے اور پھر پیشہ ور پیر اور عامل بھی اس بات کو تقویت دیتے رہیں گے کہ تجھ پر فلاں نے کیا‘ فلاں نے کیا حالانکہ نہ تووہ جادو ہوتا ہے نہ جنات کا حملہ ہوتا ہے۔وہ شیطانی چیزوں کے وساوس اور مکافات عمل ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی خوشیوں کے وقت اللہ اور اس کے حبیبﷺ کو راضی نہیں کیا۔ اللہ پاک نے ساری زندگی کے لیے ان سے راحت چھین لیں۔ خوشیوں کا سامان چھین لیں، خیریں چھین لیں اور جو خیریں ان کے مقدر میں لکھیں گئی تھیںوہ تقدیر سے مٹا دی گئیں۔
اس جوان کے بیٹے کو جگر کا پیدائشی کینسر ہوگا
وہ شریر جن کہنے لگا کہ وہ شخص میرا دوست تھا آخر اس کا بچہ پیدا ہوا جب اس کا بچہ پیدا ہوا تو اس کا سر بڑھا ہوا تھا‘ اس کا جسم بالکل کمزور تھا‘ ڈاکٹر نے فوراً اس کو ہسپتال میں داخل کرلیا ‘اس کا علاج کرتے رہے‘ ٹیسٹ کیے‘ ٹیسٹ کرنے کے بعد پتہ چلا کہ اس کو پیدائشی جگر کا کینسر ہے اور خون کا کینسر ہے اور سر میں پانی بھرا ہوا ہے۔
جو کچھ کیا اسی کی سزا بھگت رہی
پہلی دفعہ اس کی بیوی کو احساس ہوا کہ میں جو کچھ کر چکی ہوں اس کی سزا بھگت رہی ہوں‘ وہ اپنی ساس کے پاس گئی اور اس نے ساس کے پائوں کو ہاتھ لگایا اس سے معافی مانگی‘ اس کی ساس خاموش رہی اس کے آنسو بہا رہے تھے۔ اس نے اپنی بہو سے کہاں کہ اپنے شوہر کو کہو کہ ماں سے معافی مانگے اورباپ کی قبر پر جاکر باپ سے معافی مانگے پر اس کے دماغ پر میں چھایا ہوا تھا۔ اس کے اندر کچھ ایمان تو تھا ہی آخر ماں کے آگے جھکا، ماں خاموش اور اس کے آنسو بہہ رہے تھے لیکن ان کے اندر سچی ندامت نہ تھی‘ سچی توبہ نہ تھی ورنہ ان کو ماں معاف کردیتی وہ دل سے توبہ اور ندامت نہیں تھے ۔
کتے اور خنزیر کی کھوپڑی کا جادو
وہ جن کہنے لگا کہ میری زندگی کا تجربہ ہے جن لوگوں کی خوشیوں میں شادیوں میں عریانی، فحاشی‘ ایسا لباس جو لباس انسان نہ پہن سکے جس لباس میں حیاء ختم ہوجائے‘ کھلے سر، کھلے بال، کھلے گلے تو وہ سمجھ لیں ان پر کتے کی کھوپڑی کا، خنزیر کی کھوپڑی کا جادو ہوا ہے۔ اور عامل بھی یہی کہیں گے کہ تمہارے اوپر خطرناک قسم کا جادو ہے اور کتے اور خنزیر کی کھوپڑی کا جادو اس سے بڑا کوئی جادو نہیں ہوتا اور وہ ہم جیسے لوگ شیطانی چیزیں ان پر یہ جادو کرتی ہیں۔ جس سے ان کے ہوش و حواس ختم ہو جاتے ہیں اور وہ اللہ اور اس کے رسول(ﷺ) اور نیک لوگوں کی باتوں کا مذاق اڑاتے ہیں اور پھر ساری عمر مصیبتوں، تکلیفوں، پریشانیوں، مشکلات اور مسائل میں ڈوبے رہتے ہیں اور وہ مسائل میں اتنا ڈوبتے ہیں کہ ان کو واپسی ممکن نہیں ہوتی اور نکلنا ممکن نہیں ہوتا اور ان حالات میں آخر کار وہ اپنی زندگی دکھوں کے ساتھ گزار کر چلے جاتے ہیں۔
شادیوں پر کتنا اللہ اور اسکے رسول ﷺ کو ناراض کیا
کوئی ایک دن بھی ایسا نہیں ہوتا کہ وہ ایک دن یہ بیٹھ کر سوچیں کہ ہم نے اپنی شادیوں اور خوشیوں میں کتنا اللہ اور اس کے رسولﷺ کو ناراض کیا ہے۔ کتنا ہم نے شیطانی چیزوں کوراضی کیا ہے، کتنا ہم نے فضول مال خرچ کیا۔
کتنا ہم نے ایسے دھرتی کو ناپاک کیا جس کی وجہ سے اللہ ناراض ہوا اور اس کی ناراضگی مختلف بیماریوں اور تکالیف، مشکلات، پریشانیوں، دکھوں اور ناراضگیوں کی شکل میں شروع ہوئی۔ یہ کوئی احساس میں ہونے نہیں دیتا ہم شیطانی چیزیں بھرپور اس شخص کا پیچھا کرتی ہیں اور بھرپور اس شخص کو ہم تقویت دیتی ہیں اور اس شخص کو اتنی تقویت دیتی ہیں کہ وہ اپنی گناہوں کی زندگی پر کبھی نادم نہیں ہوتے اور وہ آگے سے آگے بڑھتا چلا جاتا ہے یہی حال اس جوان کا ہم نے کیا۔
ایکسیڈنٹ اور کمر کے تین مہرے ٹوٹ گئے
وہ خود تو گمراہ ہوا اس نے کئی لوگوں کی شادیوں میں گمراہیاں پھیلائیں ، بربادیاں پھیلائیں اور ان کی وجہ سے بے شمار لوگوں کے کاروبار برباد ہوئے، سکھ اور چین گیا، راحتوں اور زندگیوں کا نظام سارا متاثر ہوا لیکن وہ کسی شکل میں اپنے کام سے باز آنے والا نہیں تھا۔ آخر خود اس کو کاروباری پریشانی شروع ہوگئی اور اس کے پیسے ایک جگہ ڈوب گئے اس کا حادثہ ہوا اس کی کمر کے تین مہرے ٹوٹ گئے اور وہ چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہا‘ پورے گیارہ ماہ بستر پر رہا پھر کچھ بیساکھیوں سے اور کچھ بیلٹ باندھ کر ہلکا ہلکا چلنے لگا۔ اس کو پھر بھی احساس نہ ہوا کہ مکافات عمل کا کوڑا کہاں سے برس رہا ہے۔ آخر ایک رات اس نے خواب دیکھا اس خواب دیکھنے کی وجہ بھی وہ شریر جن کہنے لگا اس کی بیوی کو کچھ نصیحت ملی تھی وہ نماز تسبیح اور توبہ کی طرف مائل ہوئی اور اس نے ایک خواب دیکھا ‘خواب میں دیکھا کہ اس کے بہت سارے رشتہ دار جتنے بھی فوت ہوگئے ہیں اس کی عیادت کرنے آئے ہیں اور اس کا باپ بھی آیا ہے لیکن دور کھڑا ہے اس سے بات نہیں کررہا اور محسوس ہورہا ہے‘ وہ اس سے ناراض ہے تو اس نے جا کر خواب میں ہی باپ سے معافی مانگی اور سب کہنے لگے جتنے بھی رشتے دار آئے تھے‘ خواب میں اس کے باپ کو کہا اس کو معاف کردو تو وہ باپ کہنے لگا کہ میں روزانہ بیٹھ کر اس کی تباہی و بربادی کیلئے اللہ سے بددعا کرتاہوں‘ یہ کبھی بھی سکون چین نہیں پائے گا ‘کبھی بھی راحت نہیں پائے گا اور زندگی میں اس کو راحت ، سکون، چین آ ہی نہیں سکتا اور زندگی اس طرح بے سکون، بے چین گزرے گی۔
دنیا میں بھی ذلیل اور آخرت میں بھی ذلیل
اپنی زندگی میں وہ بہت ناکام ہوچکا تھا بہت پریشان ہوچکا تھا۔ خواب دیکھا آخر کار اس کے باپ نے اس کو خواب میں معاف کردیا جو اس کے لیے بددعا کرتا تھا کہ تو نے مجھے دکھ دیا تو نے مجھے تکلیفیں دی، تم نے مجھے ذلیل کیا دنیا میں بھی آخرت میں بھی میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گا۔ رشتہ داروں کی منت سے اس نے اس کو معاف کیا۔ جب اس کی آنکھ کھلی تو رو رہا تھا اور بلک بلک کر رو رہا تھا۔ نیکی تھی جو اس کے قریب آئی میرا وسوسہ پر نہ چلا اور وہ اٹھا اور ماں کے قدموں سے لپٹ گیا‘ آج وہ سچی توبہ کررہا تھا کہ ماںمیں نے اپنا گھر بھی برباد کیا اور بے شمار لوگوں کے گھر شادیوں اور خوشیوں کے نام پر مووی اور میوزک کے نام پر ، عریانی اور فحاشی کے نام پر، کھلے گلے، کھلے بالوں کے نام پر، ناچ طوائفوں اور خواجہ سرا کے نام پر لوگوں کے گھر برباد کیے۔
ماں تو کب کی مرچکی تھی!
ماں مجھے معاف کردے ماں مجھے معاف کردے لیکن اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ جس ماں کے قدموں سے وہ لپٹا ہوا تھا وہ ماں تو کب کی مر چکی تھی اور اس کو مرے ہوئے کئی گھنٹے ہوچکے تھے ۔ اس کو احساس ہوا تو ماں کے منہ سے لپٹا تو اسے احساس ہوا ماں تومیت ہوچکی ہے۔ اب اس کی اور اس کی بیوی کی آنکھیں کھلیں لیکن اب وہ پچھتاوا تھا‘ مایوسی تھی زندگی بھر کا رونا تھا اور زندگی بھر کا ایک غم تھا۔
آج وہ در در کی بھیک مانگ رہا
آج بھی اس کی اولادیں معذور ہیں وہ در در بھیک مانگ رہا ہے، اس کا کاروبار تھا بہت عالی شان،بڑی گاڑیوں کا شو روم تھا‘ کروڑوں اربوں میں کھیلتا تھا‘ سب کچھ لٹ چکا تھا جنہوں نے دینے ہیں وہ قریب نہیں آتے‘ جنہوں نے لینے ہیں وہ اس کے پیچھے ہیں کئی بار جیل جا چکا ہے‘ سزائیں بھگت چکا جو بڑے بڑے افسران اور بڑے بڑے لوگ اس کی دعوتوں میں ہوتے تھے وہ سب اس سے منہ موڑ چکے۔
سب اس کا ساتھ چھوڑ گئے اور سب اس کی زندگی سے دور ہوگئے اور آج وہ ایک حسرت کی نشانی ہے ۔وہ شریر جن رو رو کر بلک بلک کر کہنے لگا: داروغہ جیل سے مجھے معاف کردیں‘ مجھے خلاصی دیدیں میں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا۔ بہت سے لوگ میری وجہ سے برباد ہوئے میں آپ سے معافی مانگتا ہوں مجھے معاف کردیں ‘مجھے معاف کردیں اور وہ رو رہا تھا اور میں حسرت کی کیفیتوں کے ساتھ اس کو دیکھ رہا تھا کہ یہ جن کیسے معافی کے قابل ہے؟
شادیاں تو لوگ خوشیوں کیلئے کرتے ہیں!
جن مزید بولا:شادیاں تو لوگ خوشیوں کے لیے کرتے ہیں اور ماوں کی پہلے دن سے پنگھوڑے میں جھولا جھولاتے ہوئے یہ حسرتیں ہوتی ہیں کہ میرا بیٹا بڑا ہوگا‘ پھر میں اس کے لیے بہو لاؤں گی ‘پھر میرے گھر کا آنگن ہوگا میرے گھر میں چھوٹے چھوٹےبچے ہوں گے‘ ان کا پیار اور محبت ہوگی۔ پھر چھوٹے بچے میرے گھر میں بھاگیں گے‘ دوڑیں گے‘ پھر چیزیں بھی خراب کریں گے‘ اچھا کوئی بات نہیں۔ ان چیزوں کی خرابی کو کبھی میں برداشت کرلوں گی لیکن میرے بچے تو ہوں گے ۔
خوشی کے نام پر فیشن اور ہندوانہ رسمیں
پھر وہی ماں اور وہی باپ ہوتا ہے جب شادی کا وقت آتا ہے تو دنیا کے سارے رواج ‘ساری ہندوانہ رسمیں اور ریتیں ان کے گھروں میں آجاتی ہیں۔ خوشی کے نام پر‘ فیشن کے نام پر‘ عزیز رشتہ دار اور شریک کے نام پر‘دل کی حسرتوں اور محبتوں کے نام پر‘جن مزید کہنےلگا: یہ سب کچھ ہماری شیطانی طاقتوں کے کرتوت ہوتے ہیں جو ہم ان کے دلوں میں ڈالتےہیں‘ ہماری خواہش یہ ہوتی ہے کہ یہ برباد ہوں‘ کبھی خوشحال نہ ہوں‘ یہ بے آباد ہوں‘ ان کو زندگی میں ہمیشہ ناکامیاں ہوں‘ مشکلات ہوں‘ پریشانیاں ہوں اور یہ ہمیشہ بربادی اور بے آبادی میں ہی رچیں بسیں رہیں۔ کبھی ان کو سکھ اورسکون کا سانس نہ ملے اور کبھی ان کو راحت نہ ملے۔ کبھی ان کے مسائل حل نہ ہوں۔ اور ہمیشہ یہ زندگی میں پریشان ہی رہیں پھر جب ان کی اولاد ہو تو اس وقت بھی یہ لولی ‘ لنگڑی ‘ کانی ‘اپاہج ہو یا پھر اندرونی ایسے روگ میں مبتلا ہو جس روگ کو یہ ساری زندگی سلجھاتے سلجھاتے بوڑھے ہوجائیں یا مر جائیں۔
جنات کا زور دار قہقہہ اور شادی کو عبرت بنانا
جن قہقہہ لگا کر کہنے لگاکہ اس وقت ہم نے ان کی آنکھیں بندکی ہوئی ہوتی ہیں اس وقت ہم نے ان کے دل بند‘ سوچیں بند‘ جذبات بند کیےہوتے ہیں۔ ہم بے پردگی کو عروج پر لاتےہیں‘ چہرہ کھلا‘ بال کھلے‘ گلا کھلا ہوتا ہے۔ لباس انوکھے اور بدتہذیب ہوتے ہیں اور خواتین مٹک مٹک کر چلتی ہیں‘ ان کے اندر کی چال میں ہماری ایک سازش ہوتی ہے ہم ان کے دلوں میں یہ وساوس بھرتے ہیں اور ان وساوس سے ہم انہیں مزید بدحال کردیتے ہیں اور ان کے پل پل کو ہم فیشن اور دکھاوے کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔
خواتین اور شریر جنات کی بے ہودہ خواہشات
ہماری خواہش ہوتی ہے کہ ہم جنات ان کے بالوں سے کھیلیں‘ ان کے سینے سے کھیلیں‘ ان کے جسم سے کھیلیں اور ہم کھیلتے ہیں ان کے اندر گناہوں‘ بدکاریوں‘ بدنظری اور بے حیائی کے جذبات ابھارتے ہیں اور پیدا کرتے ہیں پھر یہی بے حیائی ان کے نطفے میں ہم شامل کرکے ان کی نسلوں میں عریانی‘ فحاشی‘ ویرانی اور بدتمیزی پیدا کرتے ہیں اور ان کی نسلوں میں عریانی‘ فحاشی اور بدتمیزی ایسی آتی ہے کہ ان کا پل پل ویران ہوجاتا ہے۔
شادیوں کی بے حیائیوں کے بعد
ان کے پل پل میں غربت، تنگدستی یا بیماری یا گھریلوالجھن نہ آپس میں جھگڑے‘ نفرتیں‘ لڑائیاں اور دھوکے پیدا ہوتے ہیں اور وہ دھوکے ایسے پیدا ہوتےہیں کہ ایک دوسرے کا چہرہ دیکھنے کو ترستے ہیں‘ نفرتوں کی وجہ سے اگر دیکھتے بھی ہیں کہ آپس میں نفرتیں اتنی ہوتی ہیں ایک دوسرے کو برداشت نہیں کرتے اور ایک دوسرے کے خلاف اتنا ہوتے ہیں کہ ہمیشہ ان کی نفرتیں بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ ان کے مزاج میں سختی‘ تکبر اور بے حیائی اتنی بڑھ جاتی ہے کہ خونی رشتے ٹوٹ جاتے ہیں‘ صلہ رحمی ختم ہوجاتی ہے اور آپس میں ایک دوسرے سے الجھتے ہیں حتیٰ کہ فیصلہ کرتے ہیں کہ میں اس کی موت پر نہیں جاؤں گا‘ اس کی خوشیوں میں شریک نہیں ہوں گا اس کو دیکھنا پسند نہیں کروںگا۔ وہ جن ایک زور دار قہقہہ لگا کر کہنے لگا کہ پھر انہی شادیوں کی بے حیائیوں کے بعد ہم ماں بیٹے کولڑاتے ہیں‘ بہن بھائیوں کوالجھاتے ہیں‘ آپس میں مقدمات میں شامل کرتے ہیں اور مقدمات میں ایک دوسرے کو عدالتوں میں گھسیٹتے ہیں۔
ماں اولاد کی موت کیلئے بددعائیں کرتی ہے
پھر وہی ماں جس نے ساری عمر اولاد کو جتن اور قربانی کرکے پالا تھا‘ وہی ماں اپنی اولاد کی موت کیلئے دعا کرتی ہے‘ وہی ماں اپنی اولاد کیلئے نفرتوں کے بول بولتی ہے‘ پھر وکیل کیے جاتے ہیں اور تھانوں میںاپنی ہی بیٹی اوربیٹے کیلئے‘ اپنے ہی سگے بھائی کے لیے ایف آئی آر کرائی جاتی ہے۔ ماں باپ گئےلیکن ہم شیطانی چیزیں ‘آگ اور دھوئیں سے بنی ہوئی مخلوق ان کے دلوں میں نفرتوں کے آلاؤ ڈال دیتے ہیں اورآتش طوفان ہوتا ہے‘ ایسی آتش ہوتی ہے کہ زندگیاں مردہ ہوجاتی ہیں‘ آنکھیں ویران ہوجاتی ہیں‘ اتنی ویران کہ قبریں بھی سسک رہی ہوتی ہیں حتیٰ کہ ان کی قبروں سے بھی ہم نفرت سکھاتے ہیں اور موت کے بعد بھی نفرت کے بول سکھاتے ہیں۔
یہ تمام شیطانی چیزوں کا کمال اور کرشمہ ہے!
وہ جن اپنے قہقہہ سے ذرا تھما اور پھر سنجیدگی سے بولنے لگا‘ یہ سب بنیاد اس وقت ہم ڈالتے ہیں جس وقت ان کی شادی ہورہی ہوتی ہے اور جس وقت وہ شادی میںمصروف ہوتے ہیں‘ تمام رسمیں‘ تمام رواج ‘تمام ڈھول ‘ تمام تماشے اور موویز بن رہی ہوتی ہیں۔ یہ سب کچھ ہورہا ہوتا ہے اور یہ زمانہ کے سامنے سر اٹھا کر چلتے ہیں‘ یہ تکبر‘ یہ نخوت اوریہ سر اٹھانا یہ شیطانی چیزوں کا خاص کمال اور کرشمہ ہے۔
شیطانی طاقتوں کی کرامت
شیطانی چیزیں نفرت کا وہ سامان پیدا کرتی ہیں۔ ایک شادی کا حال سناتے ہوئے ایک کالے جن نے بتایا کہ اس شادی کے اوپر ہم نے تمام رسمیں رواج پورے کروائے‘ ابھی چند سال ہی ہوئے ہیں اور نوجوان عیاش لڑکے موویز کی شکل میں گھروں میں داخل کروائے اور گھر گھر میں آگ لگائی‘ اب ان کے بچے اپاہج ہوتے ہیں‘ لولے لنگڑے ہوتے ہیں‘ ناکارہ ہوتے ہیں اوردوسرے بھائی کے بچوں کو ایک ایسی بیماری ہے جس میں مسلسل ان کو ہسپتال میں ہر ہفتے لے جانا پڑتا ہے۔
بے بسی کی زندگی
تمام ڈاکٹر اس کی بیماری سے عاجز ہیں‘ علاج کرنے والے تھک چکے ہیں اور معالج زندگی سے عاجز آچکے ہیں اور حتیٰ کہ اب خود گھر والے بھی عاجز آچکے ہیں اورکہتے ہیں کہ بس ان بچوں کی موت کی تاخیر ہے حالانکہ یہ وہی بچے تھے جنہیں مانگ مانگ کر لیا گیا تھا یہ وہی بچے تھے جنہیں بہت منتوں‘ مرادوں کے بعد حاصل کیا گیا۔
شادی پرڈانس‘ میوزک‘گانے اور فیشن کا زہر
آج وہی گھر ہے جو خود ہسپتال بنا ہوا ہے ہر ڈاکٹر عاجز ‘ہر معالج ناکام ہے‘ ہر شخص تھک چکا ہے لیکن ان کا علاج کہیں ختم نہ ہونے والا ہے اوروہ کبھی بھی ختم نہیں ہوگا کیونکہ ہم نے پہلے دن سے انہیں شادی کی خوشیوں کے نام پر جو ناسور لگایا ہے۔ انہیں گانے‘ بجانے‘ ڈانس اور میوزک کے شوق کے نام پر جو زہر دیا ہے‘ انہیں موویز ‘ فوٹوسیشن ‘ خواتین اور مردوں کو اکٹھا کرکے جو زندگی کا چلن دیا ہے وہ ان کی نسلوں کو ڈستا رہے گا۔ ان کی نسلیں‘ سسکتی رہیں گی‘ تڑپتی رہیں گی اور ان کی نسلیں ہمیشہ تار تار ہوکر ان کے بدن کے ایک ایک تار سے دکھ‘ تکلیف‘ آہیں‘ پریشانیاں‘ ذہنی الجھن اور مشکلات رہیں گی۔ اس وقت تک جب تک وہ سچی توبہ نہ کرلیں اوراس وقت تک کہ جب تک وہ اپنی نسلوں کو آئندہ اس روگ سے بچا نہ لیں اگر نہ بچایا تو کچھ بھی نہیں ہوگا اور ہمیشہ مشکلات پریشانیاں اور ناکامیاں ان کے ساتھ رہیں گی۔
آئیں! سب وعدہ کریں!
آئیں! ہم سب وعدہ کریں کہ ہم آئندہ کے لیے شادی کرنے سے پہلے بہت کچھ سوچیں‘ کہیں ہم بھی عبرت کا سامان اور نشانہ نہ بن جائیں۔ (جاری ہے)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں